کچھ تھا۔غرض کونسا گناہ تھا جو اُن میں نہ تھا لیکن آنحضرت ,ﷺ کے فیضِ صحبت اور تربیت سے اُن پر وہ اثر ہوا۔ اور ان کی حالت میں وہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود آنحضرت ﷺ نے اس کی شہادت دی اور کہا اﷲ اﷲ فی اصحابی۔ گویا بشریت کا چولہ اُتار کر مظہر اﷲ ہو گئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہو گئی تھی جو یفعلون ما یؤمرون (التحریم : ۷) کے مصداق ہیں۔ ٹھیک ایسی ہی حالت صحابہؓ کی ہو گئی تھی۔ ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دور ہو گئے تے۔ ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں۔نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو۔ بجز اس کے کہ اﷲ تعالیٰ راضی ہو۔اور اس کے لیے وہ خد اتعالیٰ کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے۔ قرآن شریف ان کی اس حالت کے متعلق فرماتا ہے۔ منہم من قضیٰ نحبہ و منہم من ینتظر وما بدلو اتبدیلا (الاحزاب : ۲۴) دین کو دنیا پر مقدم کر لو یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہو جاوے۔مگر صحابہؓ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا۔ جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو۔ پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے۔ پس یہ ضروری امر ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کر لو۔ یاد رکھو اب جس کا اصول دنیا ہے اور پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیںہے۔اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دست بردار ہے۔ یہ کوئی مت خیال کرے کہ میں ایسے خیال سے تباہ ہو جائوں گا۔یہ خدا شناسی کی راہ سے دور لے جانے والا خیال ہے۔خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کریم ہے جو شخص اس کی راہ میں کچھ کھوتا ہے وہی کچھ پاتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں کو پیار کرتا ہے اور انہیں کی اولاد بابرکت ہوتی ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے۔ اور یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرماں بردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے۔دنیا ان لوگوں ہی کی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہر امر کی طناب اﷲ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا۔ کوء کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اور کسی کسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آسکتی دولت ہوسکتی ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ بیوی یا بچوں کے ضرور کام آئے گی۔ان باتوں پر غور کرو اور اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرو۔ غرض مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں جماعت کو دیکھتا ہوں کہ یہ ابھی تھوڑے ابتلا کے بھی لائق نہیں۔