تجویز بھی بہت سے لوگوں کے لیا ابتلاء کا موجب ہوگی لیکن اس بنا سے غرض یہی ہے کہ تا آنیوالی نسلوں کے لیے ایک ایسی قوم کا نمونہ ہو جیسے صحابہؓ کا تھا اور تا لوگ جانیں کہ وہ اسلام اور اس کی اشاعت کے لیے فدا شدہ تھے۔ ابتلائوں کا آنا ضروری ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :
احسب الناس ان یترکو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اُن سے اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے اور وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے؛ حالانکہ وہ ابھی امتحان میں نہیں ڈالے گئے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے۔
لن تنا لو البر حتی تنفقو امما تحبون (اٰل عمران : ۹۳)
یعنی اس وقت تک تم حقیقی نیکی کو حاصل ہی نہیں کر سکتے جبتک تم اس چیز کو خرچ نہ کرو گے جو تم کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے۔
اب غور کرو۔ جبکہ حقیقی نیکی اور رضاء الٰہی کا حصول ان باتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں تو پھر نری لاف گزاف سے کیا ہو سکتا ہے۔ صحابہؓ کا یہ حال تھا کہ ان میں سے مثلاً ابو بکر ؓ کا وہ قدم اور صدق تھا کہ سارا مال ہی آنحضرت کے پاس لے آئے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ کہ خدا تعالیٰ کے لیے زندگی وقف کر چکے تھے۔اور انہوں نے اپان کچھ بھی نہ رکھا تھا۔ مومن کی بھلائی کے دن بھلے آتے ہیں تو ایسے موقعوں پر جبکہ اس کو کچھ خرچ کرنا پڑؑ خوش ہوت اہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ ہر صدق و صفا کے جواَب تک چھپے ہوئے تھے ظاہر ہوں گے۔برخلاف اس کے منافق ڈرتا ہے اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اب اس کا نفاق ظاہر ہو جائے گا۔
یہ قبرستان کا امر بھی اسی قسم کا ہے مومن اس سے خوش ہوں گے اور منافقوں کا نفاق ظاہر ہو جائے گا۔ میں نے اس امر کو جبتک تو اتر سے مجھ پر نہ کھلا پیش نہیں کیا۔ اس میں تو کچھ شک ہی نہیں کہ آخر ہم سب مرنے والے ہیں۔ اب غور کرو کہ جو لوگ اپنے بعد اموال چھوڑ جاتے ہیں وہ اموال ان کی اولاد کے قبضہ میں آتے ہیں۔مرنے کے بعد انہیں کیا معلوم کہ اولاد کیسی ہو؟ بعض اوقات اولا دایسی شریر اور فاسق فاجر نکلتی ہے کہ وہ سارا مال شراب خانوںاور زنا کاری مینا ور ہر قسم کے فسق و فجور میں تباہ کیا جاتا ہے اور اس طرح پر وہ مال بجائے مفید ہونے کے مضر ہوتا ہے اور چھوڑنے والے پر عذاب کا موجب ہو جاتا ہے جبکہ یہ حالت ہے تو پھر کیوں تم اپنے اموال کو ایسے موقع پر خرچ نہ کرو جو تمہارے لیے ثواب اور فائدہ کا باعث ہو۔ اور یہی صورت ہے کہ تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہو۔ اس سے فائدہ یہ ہوگ ااگر تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہے تو اس بدی کا تدارک ہو جائے گا۔ جو اس مال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو۔ یعنی جو بدی اولاد کرتی ہے۔