کی جماعت تیار کی۔میرا دعویٰ ہے کہ ایسی جماعت آدم سے لے کر آخر تک کسی کو نہیں ملی۔
جماعت کی موجودہ حالت
میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ہم کو بھی ایسی جماعت نہیں ملی۔ جب ہم کسی امر میں فیصلہ کر دیں تو تھوڑے ہیں جو اس کو شرح صدر سے منظور کر لیں۔آنحضرت ﷺ کے تو وہ ایسے فدائی اور جاں نثار تھے کہ جانیں دے دیں۔ اب اگر اتنا ہی کہا جاوے کہ سودو سو کوس پر جائو اور وہاں دو چار برس تک بیٹھے رہو تو پھر گننے مننے لگ جاویں۔ زبان سے تو کہنے کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ جو کر دیں ہم کو منظور ہے، لیکن جب کہا جاوے تو پھر ناراضگی کا موجب ہوتا ہے۔ یہ نفاق ہوتا ہے۔ میں منفقوں کو پسند نہیں کرتا اﷲ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے:
ان المنا فقین فی الدرک الاسفل من النار (النساء : ۱۴۶)
یقینا یاد رکھو کہ منافق کافر سے بھی بدتر ہے، اس لیے کہ کافر میں شجاعت اور قوت فیصلہ تو ہوتی ہے۔ وہ دلیری کے ساتھ اپنی مخالفت کا اظہار کر دیتا ہے مگر منافق میں شجاعت اور قوت فیصلہ نہین ہوتی۔ وہ چھپاتا ہے۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت میں وہ اطاعت ہوتی جو ہونی چاہیے تھی تو اب تک یہ جماعت بہت کچھ ترقی کر لیتی۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ ابھی تک کمزور ہیں۔ مین یہ نہین کہتا کہ وہ میرا کہا نہیں مانتے، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی ابتلا آجاوے تو موت آجاوے۔جماعت کی ایسی حالت دیکھ کر دل میں درد پیدا ہوتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے امر اور وحی سے قبرستان کی تجویز
اب جو بار بار اﷲ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ تیری اجل کے دن قریب ہیں۔جیسا کہ یہ الہام ہے :۔
قرب اجلک المقدر۔ ولا نبقی لک من المخز یات ذکرا
ایسا ہی اردو زبان میں بھی فرمایا :
بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اس دن سب بر اداسی چھا جائے گی۔
غرض جب خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر کر دیا کہ اب تھوڑ ے دن باقی ہیں تو اسی لیے میں نے وہ تجویز سوچی جو قبرستان کی ہے۔ اور یہ تجویز میں نے اﷲ تعالیٰ کے امر اور وحی سے کی ہے اور اسی کے امر سے اس کی بناء ڈالی ہے کیونکہ اس کے متعلق عرصہ سے مجھے خبر دی گئی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ یہ