کے لیے سعی کرتے ہیں اور اپنے اپنے رنگ میں ہر شخص کوشش کرتا ہے۔دیکھو ایک کسان کی خواہ کیسی ہی عمدہ زمین ہو۔آب پاشی کے لیے کنوأاں بھی ہو لیکن پھر بھی وہ تردد کرتا ہے۔زمین کو جوتتا ہے، قلبہ رانی کر کے اس میں بیج ڈالتاہے۔ پھر اس کی آب پاشی کرتا ہے۔ حفاظت اور نگہبانی کرتا ہے اور بہت کوشش اور محنت کے بعد وہ اپنا ماحصل حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح پر ہر قسم کے معاملات میں دنیا کے ہوں یا دین کے محنت ، مجاہدہ اور سعی کی حاجب اور ضرورت ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا اثر
اوائل صدرِ اسلام میں جبکہ اﷲ تعالیٰ کے محض فضل و کرم سے آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے تو آپ کو وہ قوتِ قدسی عطا ہوئی کہ جس کے قوی اثر سے ہزاروں با اخلاص اور جان نثار مسلمان پیدا ہو گئے۔ آپ کی جماعت ایک ایسی قابلِ قدر اور قابل رشک جماعت تھی کہ ایسی جماعت کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی۔نہ حضرت موسیٰ ؑ کو ملی اور نہ حضرت عیسیٰ ؑ کو ۔میں نے اس امر کے بیان کرنے میں ہرگز ہرگز مبالغہ نہیںکیا۔بلکہ میں جانت اہوں کہ وہ جماعت جس مقام اور درجہ پر پہنچی ہوئی تھی اس کو پورے طو رپر بیان ہی نہیں کر سکتے۔ ہمارے مخالف علماء اور دوسرے فرقے اگر چہ ہمارے مخالف ہیں تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بیان میں ہم نے مبالغہ کیا ہے حضرت موسیٰ ؑ کی جماعت تو ایسی شریر، کج فہم تھی کہ وہ حضرت موسیٰ ؑکو پتھر ائو کرنا چاہتی تھی۔ بات بات میں سرکشی اور ضد کر بیٹھتے تھے۔ توریت کو پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی حالت کیسی تھی۔ وہ ایک سنگدل قوم تھی۔ کیا توریت میں ان کو رضی اﷲ عنہم کہا گیا ہے؟ہرگز نہیں بلکہ وہاں تو سرقش، ٹیڑھی،شریر وغیرہ ہی لکھا ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی جماعت، وہ اس سے بدتر تھی۔ جیسا کہ انجیل سے معلوم ہوتا ہے۔ خود حضرت عیسیٰ اپنی جماعت کو لالچی، بے ایمان کہتے رہے بلکہ یہان تک بھی کہا کہ اگر تم میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو تو تم میں یہ برکات ہوں وہ برکات ہوں۔ غرض وہ اور حضرت موسیٰ ؑ اپنی جماعت سے ناراض ہی گئے اور انہیں ایک وفادار جماعت کے میسر نہ آنے کا افسوس ہی رہا۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ نہ توریت میں اور نہ انجیل میں کہیں بھی ان کو رضی اﷲ عنہم نہیں کہا گیا۔ مگر برخلاف اس کے جو جماعت آنحضرت ﷺ کو میسر آئی تھی اور جس نے آپ کی قوت قدسی سے اثر پایا تھا اس کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
اس کا سبب کیا ہے؟ یہ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کا نتیجہ ہے اور آنحضرت ﷺ کی وجوہ فضیلت میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپؐ نے ایسی اعلیٰ درجہ