تھی؟یہی کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت فطرتاً دلوں پر اثر پڑ گیا تھا کہ یہی شخص ہے جو اس کفر اور بدعت کو جو اس وقت پھیل رہی ہے دو رکردے گا ارو آخر وہ ہو کر رہا۔ اسی طرح پر آج ہماری مخالفت کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے مخالف طبعاً یقین کرتے ہیں کہ ان کے غلط عقائد کا استیصال ہمارے ہی ہاتھ سے ہوگا۔ اس لیے وہ فطرتاً ہماری مخالفت کرتے ہیں اور ہم کو دکھ دینے مین کوئی کمی نہین کرتے مگر اُن کے یہ دکھ اور ایذائیں ہمیں اپنے کام سے نہیں روک سکتی ہین۔ یہ سچ ہے کہ آجکل ہم بہت ہی غریب ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے سواہمارا کوئی بھی نہیں۔ اور وہی ہمیں بس ہے۔ہمیشہ ہمارے خلاف یہ کوشش کی جایت ہے کہ جب او رجس طرح کسی کا بس چلے اس تھوڑی سی قوم کو نابود کر دیا جاوے۔ یہ تو اﷲ تعالیٰ ہی کا فضل ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرت اہے؛ ورنہ مخالفت کی تو یہ حالت ہے کہ اگر کوئی بیرونی مخالف مقدمہ کرے تو اندرونی مخالف اس سے سازش کرتے ہیں اور اس کو ہر قسم کی مدد دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی اندرونی مخالف حملہ کرے تو بیرونی دشمن اس سے آملتے ہیں۔ اور پھر سب ایک ہو کر مخالفت میں اُٹھتے ہیں۔ یہ ساری مخالفتییں بے حقیقت ہیں ان ساری مخالفتوں ،عداوتوں کو میں دیکھتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں اور مجھے یہ سب بے حقیقت نظر آتی ہیں جب خدا تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں۔ چنانچہ اس کا ایک وعدہ یہ ہے جو پچیس برس ہوئے اشاعت پاچکا ہے۔ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے۔ یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی ومطھرک من الذین کفرو ا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو االی یوم القیامۃ (اٰل عمراہ : ۵۶) یہ وعدہ بتا رہا یہ کہ ال تعالیٰ میرے منکروں کو میرے متبعین پرغٰلب نہیں کرے گا بلکہ وہ مغلوب ہی رہیں گے۔اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جس قدر لوگ اس فقۂ حقہ کے مخالف ہیں خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی مغلوب رہیں گے۔ پس اس وعدۂ الٰہی کو دیکھ کر ساری مخالفتیں اور عداوتیں، ہیچ نظر آتی ہیں۔ اگر چہ ہم مطمئن ہیں کہ یہ وعدے پورے ہوں گے اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے وعدے سچے ہیں وہ پورے ہو کر رہتے ہیں۔ کوئی انسان ان کو روک نہیں سکتا۔ مجاہدہ اور سعی کی ضرورت تاہم دنای جائے اساباب ہے۔ا س لیے اسباب سے کام لینا چاہیے۔دنیا میں لوگ حصول مقاصد