۸؍مئی ۱۹۰۴ء؁ طاعون کا نشان اور جماعت احمدیہ حضرت حجتہ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام گورداسپور تھے۔ ہمارے مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج لاہور بھی شرفِ نیاز کے لیے آئے ہوئے تھے۔ خلیفہ صاحب ایک روشن خیال اور ذی فہم آدمی ہیں وہ لاہور کے حالات کا ذکر کرتے رہے کہ وہاں کے مسلمانوں کی عجیب حالت ہو رہی ہے۔ ہر اتوار کو زیارتیں نکال کر باہر لے جاتے ہیں۔ اور اس فعل کو دفعیئہ طاعون کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس حالت پر خلیفہ صاحب افسوس کر رہے تھے اور اپنے مختلف حالات سناتے رہے۔ آخر آپ نے عرض کیا: خلیفہ صاحب: طاعون میں بعض مقامات پر جو ہمارے احباب مرتے ہیں اور لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جاوے؟ حضرت اقدس:اصل بات یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی مامور کو دنیا میں بھیجتا ہے تو سنّت اﷲ یہی ہے کہ تنبیہہ کے لیے کوئی نہ کوئی عذاب بھی بھیجتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے۔ جب اس کی مخالفت حدسے بڑھ جاتی ہے اور شوخی اور شرارت میں اہلِ دنیا بہت ترقی کر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑتے ہیں۔ وہ عذاب اگر چہ سرکش منکرین کے لیے ہوتا ہے مگر سنت اﷲ یہی ہے کہ مامور کے بعض متبعین بھی شہید ہو جاتے ہیں وہ عذاب اَوروں کے لیے عذاب ہوتا ہے ، مگر ان کے لیے باعثِ شہادت۔ چنانچہ قرآن شریف صاف طور پر بتاتا ہے کہ کفار جو باربار عذاب مانگتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے بتایا تھا کہ تم پر عذاب بصورت جنگ نازل ہو گا۔ آخر جب وہ سلسلہ عذاب کا شروع ہوا۔ اور کفار کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی لڑائیاں ہونے لگیں، تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان جنگوں میں صحابہؓ شہید نہیں ہوئے؛ حالانکہ یہ مسلم بات ہے کہ وہ تو کفار پر عذاب تھا اور خاص ان کے لیے ہی آیا تھا۔ مگر صحابہؓ کو بھی چشمِ زخم پہنچا اور بعض جو علمِ الہیٰ میں مقدر تھے، شہید ہوگئے۔ جن کی بابت خود اﷲتعالیٰ نے فرمایا: لا تقو لو المن یقتل فی سبیل اﷲ اموات۔(البقر:۱۵۵) بل احیاء عند ربہم یر زقون۔ (ال عمران: ۱۷۰) یعنی جو لوگ اﷲتعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاویں ان کو مردے مت کہو بلکہ وہ تو اﷲتعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں۔ اور اسی جگہ ان کی نسبت فرمایا: فرحین بما اتھم اﷲ (آل عمران: ۱۷۱) اب بتائو کہ وہ جنگ