نارلکھا ہے۔ لیکن ان مین سے ایک تو عذاب ہے اور دوسری انعام ہے، اسی لیے طاعون کی نار کی ایک خاص خصُوصیت خدا تعالیٰ نے رکھی ہے۔ اس میں آگ کو جو غلام کہا گیا ہے۔ میرا مذہب اس کے متعلق یہ ہے کہ اسما ء اور علام کو ان کے اشتقاق سے لینا چاہیے۔ غلام غلمہ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے ہیں کسی شیٔ کی خواہش کے واسطے نہایت درجہ مضطرب ہونا یا ایسی خواہش جو کہ حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور انسان پھر اس سے بیقرار ہو جاتا ہے۔ اور اسی لیے غلام کا نفظ اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے اندر نکاح کی خواہش جوش مارتی ہے۔ پس طاعون کا غلام اور غلاموں کی غلام کے بھی یہی معنے ہیں کہ جو شخص ہم سے ایک ایسا تعلق اور جوڑ پیدا کرتا ہے جو کہ صدق و وفا کے تعلقات کے ساتھ حد سے تجاوز ہوا ہو اور کسی قسم کی جدائی اور دُوئی اس کے رگ وریشہ میں نہ پائی جاتی ہو اسے وہ ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اور جو ہمارا مرید الہیٰ محبت کی آگ سے جلتا ہو گا اور خدا کو حقیقی طور پر پا لینے کی خواہش کحمال درجہ پر اس کے سینہ میں شعلہ زن سو گی۔ اسی پر بیعت کا لفظ حقیقی طور پر صادق آوے گا۔ یہا نتک کہ کسی قسم کے ابتلا کے نیچے آکر وہ ہر گز متزلزل نہ ہو بلکہ اور قدم آگے بڑھاوے۔ لیکن جبکہ لوگ ابھی تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر وہ ابتلا میں آجاتے ہیں اور عتراض کر نے لگتے ہیں تو پھر وہ اس آگ سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بیعت کی حقیقت بیعت کا لفظ ایک وسیع معنے رکھتا ہے اور اس کا مقام ایک انتہائی تعلق کا مقام ہے کہ جس سے بڑھ کر اور کسی قسم کا تعلق ہوہی نہیں سکتا۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہماے نُور کی پوری روشنی میں نہیں ہیں۔ جب تک انسان کو ابتلا کی برداشت نہ ہو اور ہر طرح سے وہ اس میں ثابت قدمی نہ دکھاسکتا ہو۔ تب تک وہ بیعت میں نہیں ہے۔ پس جو لوگ صدق و صفا میں انتہائی درجہ پر پہنچے ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو امتیاز میں رکھتا ہے۔ طاعون کے ایام میں جو لوگ بیعت میں داخل کرتا ہے۔ جب یہ خوف جاتا رہا تو پھر اپنی پہلی حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت میں ان کی بیعت کیا ہوئی؟ ؎ٰ البدر جلد ۳ نمبر ۱۸-۱۹ صفہ ۴ ، ۶۱؍مئی ۱۹۰۴ء؁