کرے اور محسوس کریکہ میں بیمار ہو ں اور پھر یہ شناخت کرے کہ طبیب کون ہے ؟جب تک یہ دو با تیں پیدا نہ ہوں وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا ۔یہ بھی یا د رہے کہ مر ض دو قسم کے ہو تے ہیں ۔ایک مرض مختلف ہو تا ہے جیسے قولنج کا درد یعنی جو محسوس ہو تا ہے اور ایک مستوی جیسے برص کے داغ کہ ان کا کوئی درد اور تکلیف بظاہر محسوس نہیں ہو تی ۔انجام خطر نا ک ہو تا ہے مگر انسان ایسی صورتوں میں ایک قسم کا اطمینان پا تا ہے اور اس کی چنداں فکر نہیں کر تا ۔اس لئے ضروری ہے کہ انسان اوّل اپنے مرض کو شناخت کرے اور اُسے محسوس کرے پھر طبیب کو شناخت کرے بہت سے لوگ ہو تے ہیں جو اپنی معمولی حالت پر راضی ہو جاتے ہیں ۔ ۱؎ ّّیہی حال اس وقت ہو رہا ہے ۔اپنی حالت پر خوش ہیں اور کہتے ہیں مہدی کی کیا ضرورت ہے حالانکہ خدادانی اور معرفت سے بالکل خالی ہو رہے ہیں ۔ خدادانی اور معرفت بہت مشکل امر ہے ۔ہر چیز اپنے لوازمات کے ساتھ آتی ہے پس جہاں خدادانی آتی ہے اس کے ساتھ ہی ایک خاص معرفت اور تبدیلی بھی آجا تی ہے کبائر اور صغائر جو چیونٹیوں کی طرح ساتھ لگے ہوئے ہیں خداکی معرفت کیساتھ ہی وہ دور ہو نے لگتے ہیں یہانتک کہ وہ محسوس کر تا ہے کہ اب میں وہ نہیں بلکہ اور ہوں ۔خدادانی میں جب ترقی کرنے لگتا ہے تو گناہ سے بیزاری اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے یہانتک کہ اطمینان کی حالت میں پہنچ جاتا ہے نفس کی تین قسمیں نفس تین قسم کے ہو تے ہیں ،ایک نفسِ امّارہ ؔ ایک لوامہ اور تیسرا مطمئنّہ پہلی حالت میں صم ’‘ بکم’‘ ہوتا ہے کچھ معلوم اور محسوس نہیں ہو تا کہ کدھر جا رہا ہے امّارہ ؔ جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے ۔اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تا ہے تو معرفت کی ابتدائی حالت میں لوامہؔکی حالت پیدا ہو جا تی ہے اور گناہ اور نیکی میںفرق کر نے لگتا ہے۔ گناہ سے نفرت کر تا ہے مگر پو ری قدرت