دعویٰ کیا ہے اس کا دریافت کرنا ہم پر فرض ہے ۔ حضرت اقدس ۔ بات یہ ہے کہ مذاق ،تمسخر صحتِ نیت میں فرق ڈالتا ہے اور ماموروں کیلیئے تو یہ سُنت چلی آئی ہے کہ لوگ ان پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں مگر حسرت ہنسی کرنے والوں ہی پر رہ جاتی ہے ۔چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا ہے یحسرۃ علی العباد ما یا تیھم من رسول الا کانو بہ یستھزء ون (لیٰس:۳۱) ناواقف انسان نہیں جانتا کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔ وہ ہنسی اور مذاق میں ایک بات کو اُڑا نا چاہتا ہے مگر تقویٰ ہے جو اسے راہِ حق کی طرف رانمائی کرتا ہے ۔ میرا دعویٰ ایسا نہیں رہاجو اَب کسی سے مخفی ہو ۔اگر تقویٰ ہو تو اس کے سمجھنے میں بھی اب مشکلات باقی نہیں رہیں ۔اس وقت صلیبی غلبہ حد سے بڑھا ہوا ہے اور مسلمانوں کا ہر امر میں انحطاط ہورہا ہے ۔ایسی حالت میں تقویٰ کا یہ تقاضا ہے اور وہ یہ سبق دیتا ہے کہ تکذیب میں مستعجل نہ ہو ۔ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے وقت یہود نے جلدی کی اور غلطی کھائی اور انکار کر بیٹھے نتیجہ یہی ہوا کہ خدا کی لعنت اور غضب کے نیچے آئے ۔ایسا ہی آنحضرت ﷺ کے وقت عیسائیوں اور یہودیوں نے غلطیاں کھائیں اور انکار کر دیا اور اس نعمت سے محروم رہے جو آپ لے کر آئے تھے ۔تقویٰ کا یہ لازمہ ہونا چاہیئے کہ ترازو کی طرح حق و انصاف کے دونوں پلّے برابر رکھے ۔اسی طرح اب ایسا زمانہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دُنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا تو اسی طرح مخالفت کا شوراُٹھا جیسے شروع سے ہوتا ٓیا ہے ،یہی مولوی جو اَب منکر ہیں اور کُفر کے فتوے دیتے ہیں میرے معبوث ہونے سے پہلے یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر بیان کیا کرتے تھے کہ تیرھویں صدی بہت خراب ہے جس سے بھیڑیوں نے بھی پناہ مانگی ہے اور اب چودھویں صدی آئی ہے جس میں مسیح اور مہدی آئیگا اور ہمارے دُکھوں کا علاج ہوگا یہاں تک کہ اکثر اکابرینِ امت نے آنے والے کو سلام کی وصیت کی اورسب نے یہ تسلیم کیا کہ جس قدر کشوف اہل اللہ کے ہیں وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں جاتے مگر جب وہ وقت آیا اور آنے والا آگیا تو وہی زبانیں انکار اور سبّ وشتم کے لیے تیز ہوگئیں ۔تقویٰ کم از کم تصدیق اور تکذیب کے دونوپہلو برابر رکھتے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بدوں نصوصِ قرآنیہ وحد یثیہ اور دلائل قویہّ عقلیہ وتائیدات سماویہ کے مان لیں۔مگر ہم یہ افسوس سے ظاہر کر تے ہیں کہ وہ مسلان جن کو قرآن شریف میں سورہ فاتحہ کے بعد ہی ھدی للمتقین سکھایا گیاتھا اور جن کو یہ تعلیم دی گئی تھی ان اولیا ء ہ الا المتقون(انفال :۳۵)اور جن کو بتایا گیا تھا انما یتقبل اللہ من المتقین ان کو کیا ہو گیا ہے کہ انہو ں نے اس معاملہ میں اسقدر جلد بازی سے کا م لیا اور تکفیر اور تکذیب کے لئے دلیر ہو گئے ۔ان کا فر ض تھا کہ وہ میرے دعاوی اور دلائل کو سنتے اور پھر خدا سے ڈر کر اُن پر غور کر تے ۔کیا ان کی جلد بازی سے یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ انہوں نے تقویٰ سے کا م لیا ہے جلد بازی