تو پھر البتّہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں۔ علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں،کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے۔اور صرف توریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حﷲت اور حرمت کے مسئلے کے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔انجیل کوئی کتاب نہیں ہے۔ اس پر ابو سعید صاحب نے عرض کی کہ اھل الکتاب میں کتاب پر الف لام بھی اس کی تخصیص کرتا ہے۔جس سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہو گیا۔ دجال شخص واحد بھی ہو سکتا ہے خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کی کہ دجال کے متعلق جو کچھ حضور نے بیان فرمایا ہے وہ بالکل حق ہے۔لیکن ایک دن میرے ذہن میں یہ بات گذری کہ دجال ایک شخص واحد بھی گذرا ہے اور اس وقت جو داجل موجود ہے وہ اس کا ظل اور اثر ہے کیونکہ موجودہ عیسویت دراصل وہ عیسویت نہیں ہے جو حضرت مسیح نے تعلیم کی بلکہ یہ بولوس کا مذہب ہے۔جس نے ہر ایک حرام کوحلال کر دیا اور کفارہ وغیرہ کے مسئلہ کی بدعت ایجاد کی اور اس کی ایک آنکھ ہی تھی۔پس آنحضرت ﷺ نے جو کچھ اس کا حلیہ بیان کیا ہے ممکن ہے کہ مکاشفہ میں آپؐ کو وہی دکھایا گیا ہو اور اس کے متبعین نے ہی یہ تمام ایجادیں کی ہیں جس کو دجال کی صفت اور کارناموں کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔حضرت اقدس نے فرمایا : ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے تقدیر مَعَلَّق و مُبرَم صدقات و خیرات سے بلا کے ٹلنے کا ذکر ہوا۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ : ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تقدیر کے دو حضے کیوں ہیں؟ تو جواب یہ کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض دفعہ سخت خطرناک صورتیں پیش آتی ہیں اور انسان بالکل مایوس ہو جاتا ہے، لیکن دعا و صدقات و خیرات سے آخر کار وہ صورت ٹل جاتی ہے۔پس آخر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اگر معلّق تقدیر کوئی شے نہیں ہے اور جو کچھ ہے مبرم ہی ہے تو پھر دفعِ بَلا کیوں ہو جاتا ہے؟ اور دعا و صدقہ خیرات وغیرہ کوئی شے نہیں ہے۔بعض ارادے الٰہی صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کو ایک حد تک خوف دلایا جاوے اور پھر صدقہ و خیرات جب وہ کرے تو وہ خوف دور کر دیا جاوے۔دعا کا اثر مثل نرومادہ کے ہوتا