جنت کے نعماء پر بھی ایسا ہی ایمان ہے ۔وہاں یہ تو نہ ہوگا کہ بہت سی گائیں بھینسیں ہوں گی اور دُودھ دوہ کر حوض میں ڈالا جائے گا ۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اشیاء ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں اور نہ زبان نے چکھیں ،نہ دل میں اُن کے فہم کا مادہ ہے ۔حالانکہ اُ ن کو دُودھ اور شہد وغیرہ ہی لکھا ہے جو کہ آنکھوں سے نظر آتا ہے اور ہم اُسے پیتے ہیں ۔ اسی طرح کئی باتیں ہیںجوکہ ہم خود دیکھتے ہیں مگر نہ تو الفاظ ملتے ہیں کہ اُن کو بیان کر سکیں نہ اُس کے بیان کرنے پر قادرہیں ۔یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر اُن کو مادی دُنیا پر قیاس کریں تو صدہا اعتراضات پیدا ہوتے ہیں ۔ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی (سورۃ بنی اسرائیل :۷۳) سے ظاہر ہے کہ دیدار کا وعدہ یہاں بھی ہے مگر ہم اُسے جسمانیات پر حمل نہیں کرسکتے۔ (البدر جلد۲ نمبر ۵ صفحہ ۳۷۔۳۸ مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۳ئ؁) ۱۳ فر ور ی ۱۹۰۳ئ؁ صدقہ اور دعا سے بَلاٹل جا تی ہے بعدادایئگی جمعہ گر دونو اح کے لو گو ں نے بیعت کی اور حضر ت اقد س نے ان کے لیے ایک مختصر تقر یر نما ز روز ہ کی پا بند ی اور ہر ایک ظلم و غیر ہ سے بچنے پر فر ما ئی کہ اپنے گھر وں میں عو رتو ں لڑکو ں سب کو نیکی کی نصیحت کر یں اور جیسے در ختو ں اور کھیتو ں کو اگر پو را پا نی نہ دیا جا ئے تو پھل نہیں لا تے ۔ اسی طر ح جب تک نیکی کا پانی دل کو نہ دیا جا ئے تووہ بھی انسا ن کے لیے کا م نہیں ہو تا ۔ جو نیک بن جا تا ہے اس پر یہ طا عو ن نہیں پڑتی مو ت تو سب کو آتی ہے اور اس کا دروز ہ بند نہیں ہوتا ۔ مگر جن میں ایک قہر کی بو ہو تی ہے ونہیں ہوتی ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلسوں سے پر ہیز کی تا کید فر ما ئی ۔ ابنیاء کی وٓیت یا د دلا ئی کہ صد قا اور دعا سے ما ل اور بد ن سے کسی کی خد مت کر دینی یہ بھی صد قہ ہے ۔ ( البدر جلد ۲ نمبر ۶ صفحہ ۴۴ مو رخہ ۲۷فر وری ۱۹۰۳ء ؁ ) دربار شام ایک نووارداور حضرت اقدس علیہ السّلام ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء ؁ کو ایک ڈاکٹر صاحب ا ؎ لکھنو سے تشریف لائے بقول اُنکے