میں نہیں ہے اور لکھا ہے کہ خدا ماندہ ہوکر تھک گیا ۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کسی کام میں مصروف ہوتا ہے تو اس کے چہرہ اور خدّو خال وغیرہ اور دیگر اعضاء کا پورا پورا پتہ نہیں لگتا مگر جب وہ فارغ ہو کر ایک تخت یا چارپائی پر آرام کی حالت میں ہوتو اس کے ہر ایک عضو کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔اسی طرح استعارہ کے طور پر خدا کی صفات کے ظہور کو ثُمَّ اسْتویٰ عَلَی الْعَرْشِ سے بیان کیاہے کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد صفات الٰہیہ کا ظہور ہوا ۔صفات اس کے ازلی ابدی ہیں مگر جب مخلوق ہوتو خالق کو شناخت کرے اور محتاج ہوں تو رازق کو پہچانیں ۔اسی طرح اس کے علم اور قادر ِ مطلق ہونے کا پتہ لگتا ہے ثُمَّ اسْتویٰ عَلَی الْعَرْشِ خدا کی اس تجلی کی طرف اشارہ ہے جو خلق السٰمٰوت و الارض کے بعد ہوئی ۔ اسی طرح اس تجلّی کے بعد ایک اور تجلّی ہوگی جب کہ ہر شئے فنا ہوگی ۔پھر ایک اَور تیسری ہوگی کہ ا حیاء اموات ہوگا ۔غرضیکہ یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس کے اندر داخل ہونا روا نہیں ہے ۔صرف ایک تجلّی سے اُسے تعبیر کر سکتے ہیں ۔قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عرش کو اپنی صفات میں داخل کیا ہے جیسے ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیدُ گویا خدا تعالیٰ کے کمالِ علو کو دوسرے معنوں میں عرش سے بیان کیا ہے اور وہ کوئی مادی اور جسمانی شئے نہیں ہے ورنہ زمین و آسمان وغیرہ کی طرح عرش کی پیدائش کا بھی ذکر ہوتا ۔اس لیے شُبہ گذرتا ہے کہ ہے تو شئے مگر غیر مخلوق اور یہاں سے دھوکا کھا کر آریوں کی طرف انسان چلا جاتا ہے کہ جیسے وہ خدا کے وجود کے علاوہ اَور اشیاء کو غیر مخلوق مانتے ہیں ویسے ہی عرش کو ایک شئے غیر مخلوق جُزاَز خدا ماننے لگتا ہے ۔یہ گمراہی ہے ۔اصل میں یہ کوئی شئے خدا کے وجود سے باہر نہیں ہے جنہوں نے اُسے ایک شئے غیر مخلوق قرار دیا وہ اسے اتم اور اکمل نہیں مانتے اور جنہوں نے مادی مانا وہ گمراہی پر ہیں کہ خدا کو ایک مجسم شئے کا محتاج مانتے ہیں کہ ایک ڈولے کی طرح فرشتوں نے اُسے اُٹھایا ہوا ہے ۔ لا یئودہ حفظھما (سورۃ البقرہ:۲۵۶) چار ملائک کا عرش کو اُٹھانا یہ بھی ایک استعارہ ہے ۔ربّ۔ رحمٰن۔ رحیم اورمالک یوم الدین یہ صفات ِ الہٰی کے مظہر ہیں اور اصل میں ملائکہ ہیں اور یہی صفات جب ذیادہ جوش سے کام میںہوں گے تو اُن کو آٹھ ملائک سے تعبیر کیا گیا ہے جو شخص اُسے بیان نہ کر سکے وہ یہ کہے کہ یہ ایک مجہول الکُنہ حقیقت ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اور حقیقت خدا کے سپرد کرے ۔اطاعت کا طریق ہے کہ خدا کی باتیں خدا کے سپرد کرے اور ان پر ایمان رکھے ۔اور اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ خدا کی تجلّیات ثلٰثہ کی طرف اشارہ ہے ۔ کَانَ عَرْشُہٗ عَلیَ الْمَٓائِ کی کُنَہ خدا ہی کو معلوم ہے کَانَ عَرْشُہٗ عَلیَ الْمَٓائِ یہ بھی ایک تجلّی تھی اور ماء کے معنے یہاں پانی بھی نہیں کر سکتے خدا معلوم کہ اس کے نزدیک ماء کے یہاں کیا معنے ہیں ۔اس کی کُنہ خدا کو معلوم ہے ۔