۱۱ فر وری ۱۹۰۳؁ء بروز چہار شنبہ عر ش عرش کے متعلق ایک صاحب نے سوال کیا کہ ثم استوی علی العرش کے کیا معنے ہیں اور عرش کیا شئے ہے؟ عرش کے مخلوق یا غیر مخلوق ہو نے کی بحث عبث ہے فر مایا :۔اس کے بارے میں لو گوں کے مختلف خیالات ہیں کوئی تو اُسے مخلوق کہتا ہے اور کوئی غیر مخلوق لیکن اگر ہم غیر مخلو ق نہ کہیں تو پھر استوے با طل ہو تا ہے ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عر ش کے مخلو ق یا غیر مخلو ق ہو نے کی بحث ہی عبث ہے ۔ یہ ایک استعا ر ہ ہے جس میں اللہ تعا لیٰ نے اپنی اعلیٰ در جے کی بلند ی کو بیا ن کیا ہے یعنی ایک ایسا مقام جو کہ ہر ایک جسم اور ہر ایک نقص سے پا ک ہے اور اس کے مقا بلہ پر یہ دینا اور تمام عا لم ہے کہ جس کی انسا ن کو پو ر ی خبر بھی نہیں ہے ۔ ا یسے مقا م کو قد یم کہا جا سکتا ہے۔ لو گ اس میں حیر ان ہیں اور غلطی سے اسے ایک ما د ی شئے خیال کر تے ہیں اور قد ا مت کے لحا ظ سے جو اعتراض لفظ ثم کا آتا ہے ۔ تو با ت یہ ہے کہ قدامت میں ثم آجا تا ہے جیسے قلم ہا تھ میں ہو تا ہے تو جیسے قلم حر کت کر تا ہے ویسے ہاتھ حر کت کر تا ہے مگر ہا تھ کو تقدم ہو تا ہے ۔ آریہ لو گ خدا کی قدا مت کے متعلق اہل اسلا م پر اعتراض کر تے ہیں کہ انکا رخدا چھ سات ہزار بر س سے چلا آتا ہے ۔ آریہ لو گ خدا کی قدامت کے کودیکھ کر خدا کی عمر کا اندازہ کر نا نا دانی ہے ۔ ہمیں اس با ت کا علم نہیں ہے کہ آدم سے اول کیا تھا کس قسم کی مخلو ق تھی ۔ اس وقت کی با ت وہی جا نے کل یو م ھو فی شان وہ اور اس کی صفا ت قدم ہی سے ہیں مگر اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہر ایک صفت کا علم ہم دید ے اور نہ اس کے کا م اس دینا میں سما سکتے ہیں ۔ خدا کے کلا م میں د قیق نظر کر نے سے لگتا ہے کہ وہ ازلی اور ابد ی ہے اور مخلو قا ت کی تر تیب اس کے از لی ہو نے کی مخالف نہیں ہے اور استعا رات کو ظا ہر پر حمل کر کے مشہودات پر لانا بھی ایک نا دا نی ہے ا سکی صفت ہے لا تد ر کہ الا بصا ر و ھو دد دک الا بصا ر ( سو رت الا نعا م :۱۰۴) ہم عر ش اور استو ی پر ایما ن لا تے ہیں اور اس کی حقیقت اور کنہہ کو خدا تعا لی کے حو الہ کر تے ہیں۔ جب دنیا وغیر ہ نہ تھی عر ش تب بھی تھا جیسے لکھا ہے کا ن عر شہ علی الماء (ھو د :۸) عرش ایک مجہول الکُنہ امر اور خُدا تعالیٰ کی تجلیات کی طرف اشارہ ہَے اس کے متعلق خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ ایک مجہول الکُنہ امر ہے اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کی طرف اشارہ ہے وہ خلق السٰمٰوت و الارض چاہتی تھی اس لیے وہ اوّل ہوکر پھر استوٰی علی العرش ہوا ۔اگرچہ توریت میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے مگر وہ اچھے الفاظ