ہو جا تا ہے اور خداتعالیٰ کو ناراض کر نے والا فعل ہو تا ہے اور اسے توفیق نہیں ملے گی کہ اسے کچھ دے سکے،لیکن اگر نرمی یا اخلاق سے پیش آویگا اور خواہ اُسے پیالہ پانی کا ہی دیدے تو ازالۂ قبض کا موجب ہو جا وے گا۔
قبض وبسط
انسان پر قبض وبسط کی حالت آتی ہے ۔بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑ ھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیداہو تا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھتی ہے۔نمازوں میں لذّت اور سرور پیداہو تا ہے لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جا تا رہتا ہے اور نمازوں میں ایک تنگی کی سی حالت پیدا ہو جا تی ہے ۔جب یہ صورت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کیساتھ استغفار کرے اور پھر درُود شریف بہت پڑھے ۔نماز بھی بار بار پڑھے۔قبض کے دوُر ہو نے کا یہی علاج ہے۔
حقیقی علم
حقیقی علمِ علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہو تاہے اور خشیت الہیٰ پیدا ہو تی ہے ۔جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمٰٓئُوا (سورۃ فاطر:۲۹)
اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہو تی تو یاد رکھو وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔ ۱؎
ایمان کیلئے مناسبت شرط ہے
قرآن شریف سے صاف طور پر معلوم ہو تا ہے کہ جب تک انسا ن کی فطرت میں سعادت اورایک مناسبت نہ ہو ایمان پیدا نہیں ہو تا ۔خدا تعالیٰ کے مامور اور مُر سل اگر چہ کھلے کھلے نشان لے کر آتے ہیں مگر اس میں بھی شُبہ نہیں کہ ان نشانوں میں ابتلاء اور اخفا کے پہلو بھی ضرور ہو تے ہیںسعید جو باریک بین اور دوُر بین نگاہ رکھتے ہیں اپنی سعادت اور مناسبتِ فطرت سے اُن اُمور کو جو دوسروں کی نگاہ میں مخفی ہو تے ہیں دیکھ لیتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں لیکن جو سطحی خیال کے لوگ ہو تے ہیں اور جن کی فطرت کو سعادت اور رُشد سے کوئی مناسبت اورحصّہ نہیں ہو تا وہ انکار کرتے ہیں اور تکذیب پر آمادہ ہو جا تے ہیں جس کا نتیجہ اُن کو برداشت کر نا پڑتا ہے ۔
دیکھو مکہ معظمہ میں جب آنحضرتﷺ کا ظہور ہوا تو ابو جہل بھی مکّہ ہی میں تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مکّہ ہی کے تھے لیکن ابو بکر ؓ کی فطرت کو سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ کچھ ایسی مناسبت تھی کہ ابھی آپؐشہر میں بھی داخل نہیں ہو ئے تھے۔ راستہ ہی میں جب ایک شخص سے پو چھا کہ کوئی نئی خبر سنائو اور اُس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اسی جگہ ایمان لے آئے اور کوئی معجزہ اور نشان نہیں مانگا اگرچہ بعد میں بے انتہا معجزات آپ نے دیکھے اور خود ایک آیت ٹھہرے۔ لیکن ابو جہل باوجود یکہ ہزاروں ہزار نشان دیکھے لیکن وہ مخالف اور انکار سے باز نہ آیا اور تکذیب ہی کرتا رہا۔