کیا چیز ہے ؟ کیونکہ صدق و فا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ہونا یہی ایک موت ہے جو ایک قسم کی طاعون ہء اگر اس طاعون سے ہزار ہادرجہ بہتر ہے کیونکہ خدا کا ہونے سے نشانہ طعن تو ہو نا ہی پڑتا ہے پس جب مومن ایک موت اپنے اوپر اختیارکر لو تو پھر دوسری موت اس کے آگے کیا شئی ہے؟ مجھے بھی الہام ہوا تھا کہ آگ سے ہمیں مت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے ۔اگ وہ اخلاص اور وفاداری سے اس کا ہوجاتا ہے تو خداتعالیٰ اس کا ولی بنتا ہے لیکن اگ ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بیشک خطرہ ہوتا ہے۔ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں۔سینہ کا علم تو خدا کو ہی ہے مگر انسان اپنی خیانت سے پکڑاجاتا ہے۔اگر خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف نہیں تو پھر بیعت فائدہ دے گی نہ کچھ اور لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جائوے تو خداتعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے اپ کو خاص کرتے ہیں۔ ان پر تجلی کرتا ہے اور خدا کے لیے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس کو بالکل چکنا چور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہے اس لیے میں باربار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو ۔اگر دل پاک نہیںہے ہا تھ رکھناکیا فا ئدہ دیگا جب دل دور ہے جب دل اور زبا ن میںا تفا ق نہیںتو میر ے ہا تھ رکھ کر منا فقا نہ اقرار کر کر تے ہیںتو یادرکھو ایسے شخص کو دو ہر ا عذاب ہو گا مگر جو سچا اقر ار کر تا ہے اس کیبڑے بڑے گنا ہ بخشے جا تے ہیں اور اس کو ایک نئی زند گی ملتی ہے ۔ میں تو زبا ن ہی سے کہتا ہو ں دل میں ڈالنا خدا کا کا م ہے ۔ آحضرت ﷺنے سمجھا نے میں کیا کسر با قی ر کھی تھی ؟ مگر ابو جہل اور اس کے امثا ل نہ سمجھے آپ کو اس قد ر فکر اور غم تھا کہ خدا نے خود فر ما یا
لعلک با خع بفسک الا یکو نو امو منین (سو رت الشعر آء :۴)
اس سے معلو م ہوتا ہے کہ آحضر ے ﷺ کو کس قد ر ہمد ردی تھی ۔ آپﷺ چا ہتے تھے کہ وہ ہلا ک ہو نے سے بچ جا و یں مگر وہنہ سکے ۔ حقیقے میں معلم اور داعظ کا تواتنا ہی فر ض ہے کہ وہ نتا دیو ے ۔ دل کی کھر کی تو خداکے فضل سے گھلتی ہے ۔ نجا ت اسی کو ملتی ہے جو دل کا صاف ہو ۔ جو صاف دل نہیں وہ اچکا اور ڈاکو ہے ۔خدا تعالیٰ اسے بر ی طرح ما ر تا ہے ۔اب یہ طا عون کے دن ہیں ابھی تو انتداء ہے ۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ؛ آگے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا
آخر کی خبر نہیں مگر جو ابتدائی حالت میں اپنے آپ کو در ست کر یں گے وہ خداکی ر حمت کا بہت بڑا حق ر کھتے ہیںمگر جو لو گ صعقہ کی طر ح دیکھ کر ایمان لا یئں گے ممکن ہے کہ ان کی تو بہ قبول نہ ہو یا تو بہ کا مو قع نہ ملے ۔ ابتداء والے ہی کا حق بڑا ہو تا ہے ۔ قا عدہ کے موافق ۱۵ یا ۲۰ دن اور طا عو ن کے روزہ کے ہیں اور آرام کی شکل نظر آتی ہے مگر وقت آتا ہے کہ پھر روزکھولنے کا زما نہ شروع ہو گا ۔ اب خدا کے سوا کو ئی عا صم نہیں ہے ۔ ایما ندار قبول نہیں کر سکتا کہ خا کے ارادہ کے خلا ف کو ئی بچ سکتا ہے ۔ فا ئدہ اور ا من کی ایک ہی راہ ہے کہ اللہ تعالیٰ