اُصول سمجھتے ہیں ۔ ایک دفعہ ایک وجود ی میرے پاس آیا اور کہا کہ مَیں خدا ہوں ۔اُس نے ہاتھ آگے بڑھایا ہوا تھا میں نے اُسکے ہاتھ پر زور سے چٹکی کاٹی حتیٰ کہ اس کی چیخ نکل گئی تو مَیں نے کہا کہ خدا کو درد بھی ہوا کرتا ہے ؟ پھر نووارد صاحب نے بیان کیا کہ وہ کہا کرتے ہیں کہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا ہے ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ توریت میں یہ ذکر ہے اس کامطلب ہے کہ تخلقوا با خلاق اللہ یعنی خدا نے چاہا کہ انسان خدا کت اخلاق پر چلے ۔جیسے وہ ہر عیب اور بدی سے پاک ہے یہ بھی پاک ہو ۔جیسے اس میں عدل و انصاف اور علم کی صفت ہے وہی اس میں ہو اس لیے اس خلق کو احسن تقویم کہا ہے ۔ لقد خلقنا الا نسان فی احسن تقویم (سورۃ التین: ۵) جو انسان خدائی اخلاق اختیار کرتے ہیں وہ اس آیت سے مُراد ہیں اور اگر کُفر کرے تو پھر اسفل سافلین اس کی جگہ ہے ۔ وجودیوں سے جب بحث کا اتفاق ہوتو اوّل اُن سے خدا کی تعریف پوچھنی چاہیئے کہ خدا کسے کہتے ہیں ؟ اور اس میں کیا صفات ہیں ۔وہ مقرر کرکے پھر اُن سے کہنا چاہیئے کہ اب ان سب باتوں کا تم اپنے اندر ثبوت دو ۔یہ نہیں کہ جو وہ کہیں سُنتے چلے جائو اور اُن کے پیچ میں آجائو بلکہ سب سے اوّل ایک معیار خدائی قائم کرنا چاہیئے بعض ان میں سے کہا کرتے ہیں کہ ابھی ہمیں خدا بننے میں کچھ کسر ہے تو کہنا چاہیئے تم بات نہ کرو جو کامل ہو گذرا ہے اسے پیش کرو ۔ یہ ایک ملحد قوم ہے ۔تقویٰ ،طہارت ،صحتِ نیت ،پابندی احکام بالکل نہیں ۔تلاوتِ قرآن نہیں کرتے ہمیشہ کافیاں پڑھتے ہیں ۔اسلام پر یہ بھی ایک مصیبت ہے کہ آج کل جس قدر گدی نشین ہیں وہ تمام قریب قریب اس وجودی مشرب کے ہیں ۔سچی معرفت اور تقویٰ کے ہر گز طالب نہیں ہیں ۔اسی مذہب میں دو شئے خدا کے بہت مخالف پڑی ہیں ایک تو کمزوری دوسرے ناپاکی ۔ یہ دونوخدا میں نہیں ہیں اور سب وجودیوں میں پائی جاتی ہیں ۔لُطف کی بات ہے کہ جب کسی وجودی کو کوئی بیماری سخت مثل قولنج وغیرہ کے ہو تو اس وقت وہ وجودی نہیں ہوا کرتا ۔پھر اچھا ہو جاوے تو یہ خیال آیا کرتا ہے کہ مَیں خدا ہوں ۔ (البدر جلد ۲نمبر ۷ صفحہ ۴۹ مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۳ ء ؁) ۲۹ جنوری ۱۹۰۳ئ؁ پنجشنبہ (بوقت سیر) فرمایا کہ ـ:۔