چلا جاتا ہے ۔غرض یہ کہ اس کے معنے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر بطور ابتلاء کے ہے اور اس سے جماعت کا ابتلاء مراد نہیں ہے بلکہ منکرین کا جو کہ جہالت ،نادانی ،افتراء سے کام لیتے ہیں ۔آدم ؑ سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ دشمنوں کو بھی اُن کے افتراء وغیرہ کے لیے ایک موقعہ دیدیتا ہے ۔چناچہ بعض وقت کوئی شکست بھی ہوجایا کرتی ہے قرآن شریف میں اس کا ذکر ہے ۔ ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ و تلک الایام نداو لھا بین الناس (سورۃ ال عمران :۱۴۱) خدا تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی جماعت کو فرماتا ہے کہ اگر تم کو کوئی زخم پہنچا ہے تو تم نے بھی اپنے مخالفین کا ستیا ناس کر دیا ہواہے ۔اگر ہمارا یہ کاروبار قلم کا نہ ہوتا بلکہ تلوار سے کام لیتے تو آخر ہمیں بھی کوئی نہ کوئی شکست ہوئی ہی تھی یہ موقع افتراء کے خدا تعالیٰ دشمنوں کو اس لیے دیتا رہتا ہے کہ مقدمہ جلد ختم نہ ہو۔اور یہ سنت اللہ ہے ۔اب غور سے دیکھا جاوے تو اُحد میں رسول اللہ ﷺ کی اصل میں فتح تھی ۔ مگر دشمن ک وفضیلت سے کیا مطلب اُسے تو موقع ملنا چاہیئے ۔ ادھر آتھم کا مقدمہ ادر مقابلہ پر لیکھرام کا قتل ۔ان کی مثال ٹھیک ٹھیک اُحد اور بدر کی لڑائی تھی ۔ کلما اضاء لھم مثو افیہ و اذا اظلم علیھم قاموا (سورۃ البقرہُ۲۱) منافقوں کا کام ہے مگر یہ لوگ قامو میں داخل ہیں ۔احتیاط سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے ۔تاریکی جب خدا کی طرف منسوب ہوتو دشمن کی آنکھ میں ابتلاء کا موقع اس سے مراد ہوتا ہے اور اس لیے اس کو غاسق اللہ کہتے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت اقدس نے گھر کے حالات سنائے کہ رات کو اُن کو بہت تکلیف تھی ۔آخر خدا تعالیی نے آرام دیدیا مگر میرا ایمان اور یقین ہے کہ یہ تمام کام دُعائوں نے ہی کیا ہے ۔ عورتوں کے لیے یہ ولادت ایک پہلو سے موت اور ایک پہلو سے زندگی ہوتی ہے گویا ولادت کے وقت اُن کو اپنی بھی ایک ولادت ہوتی ہے ۔ گھر میں بھی رات کو ایک خواب دیکھا کہ بچہ ہوا ہے تو اُنہوں نے مجھے کہا کہ میری طرف سے بھی نفل پڑھنا اور اپنی طرف سے بھی ۔پھر ڈاکٹرنی کو کہا کہ ذرا اسے لے لو تو اُس نے جواب دیا کہ لُوں کیسے ؟وہ تو مردہ ہے تو انہوں نے کہا کہ اچھا پھر مبارک کا قدر قائم رہے گا ۔ مَیں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ لڑکی اصل میں مُردہ بدست زندہ ہی ہوا کرتی ہے ۔