دیتا ہے ۔دوسرا اُس سے اچھا ۔یہی فرق مکالمہ کی کیفیت اور کثرت اور صفائی میں ہوتا ہے ۔کیا ایک لوٹے کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے اندر تھوڑا سا پانی رکھ کر کہے کہ مَیں بھی سمندر ہوں کیونکہ اس میں بھی پانی ہی ہوتا ہے ۔حالانکہ کس قدر فرق ہے سمندر میں جو پانی کی کثرت ہوتی ہے اُسکو لوٹے سے کیا نسبت ؟ پھر اس میں موتی ،سیپ اور ہزار ہا قسم کے جانور ہوتے ہیں ۔
اگر اس پر اعتراض ہوکہ اَور لوگوں کو کیوں خوابیں آتی ہیں جو کہ سچّی بھی نکلتی ہیں حتٰی کہ ہندوئوں میں بھی اور فاسق سے فاسق گروہ کنجروں میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض اوقات اُن کی خوابیں سچّی نکلی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبوت کے سلسلہ کی تائید ہو ۔ کیونکہ اگر ایسے حواس دُنیا میں نہ ہوتے تو پھر امرنبوت مشتبہ ہوجاتا ایک نابینا آفتاب کو کیسے شناخت کر سکتا ہے ؟ وہی شناخت کرے گا جسے کچھ بینائی ہو چونکہ خدا کو منظور تھا کہ اتمامِ حجت ہو اس لیے یہ خواب کا سلسلہ سب جگہ رکھ دیا ہے تاکہ قبولیت کا مادہ ہر ایک جگہ موجود رہے اور اُن کو انکار نہ کرنے دیوے لیکن جو مادہ نبی کا ہوتا ہے اس کی شان اَور ہوتی ہے اور اُسے موہبت اور بہت سی مَوتوں کے بعد تیار کیاجاتا ہے۔
(البدر جلد ۲نمبر ۶ صفحہ ۴۲ مورخہ ۲۷ فروری ۱۹۰۳ئ)
۲۷ جنوری ۱۹۰۳ئ
(بوقت سَیر)
حضرت اقدس نے مخالفین کی نسبت فرمایا کہ !
مَیں نے اب ان سے اعراض کر لیا ہے کیونکہ جواب تو اس کے لیے ہوتا ہے جس میں کوئی ذرّہ تقویٰ کا ہو مگر جس حال میں کہ ان کے پاس اب سبّ و شتم ہی ہے تو اب حوالہ بخدا کیا ۔ اچھا طریق امن کا ہم نے پیش کیا ہے کہ شرافت سے آکر اپنے شُہبات دُور کراویں ۔ہمارے مہمان خانہ میں خواہ چھ ماہ رہیں ہم دعوت دیویں گے مگر جو شخص اوّل سے عزم بالجزم کر کے آتا ہے کہ شرارت سے باز نہ آویگا اُسے ہم کیا کریں ۔میرا ہمیشہ ہی خیال ہوتا ہے کہ کوئی گروہ نیک نیتی سے آوے اور مستفید ہو ۔ازالہ شہبات کی نیت ہو ۔ ہار جیت کا خیال نہ ہو ۔نیک نیتی تو عجیب شئی ہے کہ اسکی فوراً بُو آجاتی ہے اور جب جواب کافی ملے تو نیک نیّت تو اسی وقت اُسکی خو شبو پا کر بحث سے دستبردار ہوجاتا ہے ۔
اور ہم خاص پیشگو ئیوں پر بھی حصر نہیں رکھتے ۔کوئی پہلو اس سلسلہ کا لے لیوے ۔ہم ازالہ شہبات کردیویں گے ۔اگر گذشتہ پیشگوئیوں کے پہلو کو نہ لیویں تو خدا تعالیٰ قادر ہے کہ آئندہ اَور نشانات دکھلادیوے۔
فرمایا کہ :۔