ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے ۔اس سے تو یہ ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اسی اُمّت پر ہے ا ؎
اور اھدنا الصراط المستقیم ۔الصراط الذین انعمت علیھم (سورۃ الفاتحہ: ۶ ،۷)
کی دُعا ایک بڑا دھو کا ہو گی اور اُس کی تعلیم کا کیا فائدہ ہو گو یا یہ عبث تعلیم خدا نے دی ۔
نبوت کے واسطے کثرت مکالمہ شرط ہیَ
ہاں نبوت کے واسطے کثرت مکالمہ شرط ہیَ یہ نہیں کہ ایک دو فقرے گا ہ گاہ الہام ہوئے بلکہ نبوت کے مکالمہ میں ضروری ہے کہ اس کی کیفیت صاف ہو اور کثرت سے ہو ۔
نماز عشاء پڑھ کر حضرت نے کھڑے ہو کر مکالمہ نبوت پر تقریر کی اور مثال دیکر فرما یا کہ:۔
جب تک کہ یہ فرق نہ ہو تب تک کیسے پتہ لگ سکتا ہے ۔اب دیکھو جس کے پاس ایک دو روپے ہوں اور اُدھر بادشاہ ہے کہ اس کے پاس خزانے بھرے ہوئے ہیں تو ان دونوں میں فرق ہوگا کہ نہیں ؟ زردار وُہ بھی ہے اور بادشاہ بھی ہے مگر جس کے پاس ایک دو روپے ہوں اُسے بادشاہ کوئی نہ کہیگا ۔اسی طرح فرق تو کثرت کا ہے اور کیفیت اور کمیت کابھی ہے ۔نبوت کا مکالمہ اس قدر اعلیٰ اور اصفٰی ہوتا ہے کہ ایک بشریت اُسے برداشت نہیں کر سکتی مگر وہ جو اصطفاء کے درجہ تک ہو ۔فلا یظھر علی غیبیہ احد ا الا من ارتضی من رسول ۔(سورۃ الجنّ :۲۷:۲۸)
اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی اس طرح سے بار بار ظاہر کرتا ہے کہ ایک امر کو خواب میں دکھاتا ہے پھر اُسے کشف میں ۔پھر اس کے متعلق وحی ہوتی ہے اور پھر وحی کی تکرار ہوتی رہتی ہے حتٰی کہ وہ امر غیب اس کے لیے مشہودہ اور محسوسہ امور میں داخل ہوجاتا ہے اور جس قدر تکرار ایک مہم کے نفس میں ہوتا ہے اسی قدر تکرار اس کے مکالمہ میں ہوا کرتا ہے اور اصفٰی اور اجلیٰ مکالمہ انہی لوگوں کا ہتا ہے جو اعلیٰ درجہ کا تزکیّہ نفس کرتے ہیں اس لیے تقویٰ اور طہارت کی بہت ضرورت ہے۔ اسی لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔
ثم اورثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (سورۃ فاطر : ۳۳)
ہم نے کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے اُن کو بنایا جن کو ہم نے چُن لیا ۔ یعنی ان لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جیسے ایک مکان کی کُل کھڑکیاں کُھلی ہیں کہ کوئی گوشہ تاریکی کا اُس میں نہیں اور روشنی خوب صاف اور کُھلی آرہی ہے ۔اسی طرح اُنکے مکالمہ کا حال ہوتا ہے کہ اجلی اور بہت کثرت سے ہوتا ہے ۔جیسے ایک تیل ادنیٰ قسم کا ہوتا ہے کہ دُھواں اور بدبُو بہت