ایمان کی حالت فرمایا کہ کوئی خدا پر ایمان نہیں رکھتا جب تک کہ وہ خود نشان نہ دیکھے یا اس کی صحبت میں نہ رہے جو کہ ان نشانوں کو دیکھنے والا ہے ۔خدا تعالیٰ اگر چاہے تو ان سب مخالفوں کو ایک دَم میں ہی ہلاک کر دے مگر پھر ہم اور ہمارا سلسلہ بھی ساتھ ہی ختم ہوجاتا ۔ یہ مخالفین کا شور و غوغا دراصل عمر کو بڑھاتا ہے ۔ خدا تعالیٰ بیشک سب کچھ کریگا اُن کو ذلیل وخوار بھی کرے گا ، لیکن وہ مالک ہے خواہ ایک دم کر دے خواہ رفتہ رفتہ کرے ۔خدا تعالیٰ کی عجیبدر عجیب قدرت ہے کہ جب ایک شخص کو اپنی طرف سے بھیجتا ہے تو خود بخود دو گرہ بن جاتے ہیں ۔ایک شقی اور ایک سعید ۔مگر یہ زمانہ گاہے گاہے وہ زمانہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے ۔دُوسرا زمانہ شکوک و شہبات کا زمانہ ہو تا ہے ۔ ا ؎ ختم نبّوت فرمایا اخرین منھم (سورۃ الجمعہ:۴) کے قائم مقام توریت کی ایک آیت تھی جس سے مسیح ؑ اسرائیلی کا گروہ مراد تھا اور یہاں اخرین منھم سے ہمارا گروہ ۔ انجیل کے ذکر پر فرمایا کہ عیسائی لوگ جو حضرت عیسیٰ کو خاتم ِ نبوت کہتے ہیں اور الہام کا دروازہ بند کرتے ہیں حالانکہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح کے بعد ایک یُو حنّا گذرا ہے جس نے نبوت کی اور اس کے مکاشفات کی ایک الگ کتاب انجیلوں میں ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں ۔ختمِ نبوت پر محی الدین ابن عربی کا یہی مذہب ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو چکی ورنہ اُنکے نزدیک مکالمہ الٰہی اور نبوت میں کوئی فرق نہیں ہے اس میں علماء کو بہت غلطی لگی ہے ۔ خود قرآن میں النبیّین جس پر ال پڑا ہے موجود ہے ۔اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نئی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے اگر کوئی نئی شریعت کا دعویٰ کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الٰہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام توایک مرادہ مذہب ہوگا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوئی فرق نہ رہے گا ۔کیونکہ مکالمہ کے بعد اَور کوئی ایسی بات نہیں رہتی کہ وہ ہوتو اُسے نبی کہا جئے ۔نبوت کی علامت مکالمہ ہے لیکن اب اہلِ اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا