ہم نے تو اُسے بہت وسعت دی تھی جس قدر چاہتا ہر گھنٹہ کے بعد تین چار سطریں لکھ کر پیش کیا کرتا اور اگر اُسے بیان کرنے کی نوبت دی جاتی تھی تو بھی اس شامت تھی کہ اُسے بہرحال جُھوٹ سے کام لینا پڑتا اخبار والوں اور عوام الناس کی شرارتوں اور خلافِ واقعہ بیانات کی نسبت فرمایا کہ:۔ اب ہماری جماعت کو چُپ ہی رہنا چاہیئے ۔جواب کچھ نہ دیں ۔خدا تعالیٰ ہی ان لوگوں سے سمجھے گا۔تعجب ہے کہ ثناء اللہ نے بالکل لیکھرام والی چال اختیار کی ہے جس کی غرض مباحثہ سے اظہار ِ حق نہ ہو اس سے مباحثہ کرنا لا حاصل ہے یہ کاروبار اب زمین پر نہیں رہا بلکہ آسمان پر ہے ۔ (مجلس قبل از عشائ) حضرت اقدس مولوی عبدالطیف خانصاحب سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کرتے رہے اور پھر اپنے چند ایک رئویا بتلائے جس سے ظاہر ہوتا تھ اکہ عدالت کی جو کاروائی جیسے زمیں پر جاری ہے ویسا ہی طریق خدا تعالیٰ نے بھی اختیا رکیاہوا ہے ۔منجملہ اُن کے ایک خواب تو وہ بیان کی جس میں سُرخی کے چھینٹے آپ کے لباس مبارک پر پڑے تھے۔ ا؎ حالانکہ وہ واقعہ آپ نے خواب میں دیکھا تھا ۔اور ایک خواب آپ نے یہ بیان کیا کہ:۔ مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں ۔مَیں منتظر ہوں ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہے ۔اتنے میں جواب ملا ۔ اصبر سنفر یا مرزا پھر مَیں ایک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں کچہری میں گیا ہوں ۔دیکھا تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صُورت پر کُرسی پر بیٹھا ہوا ہے ۔اور ایک طرف ایک سر رشتہ دار ہے کہ ہاتھ میں ایک مِسل لیے ہوئے پیش کررہا ہے ۔حاکم نے مِسل اُٹھا کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو مَیں نے باریک نظر سے دیکھا کہ ایک کُرسی اُس کے ایک طرف خالی پڑی ہوئی معلوم ہوئی ۔اُس نے مجھے کہا کہ اس پر بیٹھو اور مِسل اس کے ہاتھ میں لی ہوئی ہے۔اتنے میںمَیں بیدار ہوگیا ۔ پھر فرمایا کہ جس طرح میرے کُرتے والی خواب ہے جس پر سُرخ روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے ویسے ہی ایک خواب پیغمبرِ خدا ﷺ کی بھی ہے کہ ایک دفعہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ جنت کے باغوں میں سے ایک سیب آپ نے لے لیا ۔پھر اسی وقت بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ سیب ہاتھ میں ہی ہے ۔