بنتی جاوے ۱؎ گھبرانے کی بات نہیں ہے رفتہ رفتہ ہی دورہوں گے ۔جو گندے خیالات بے اختیار دل میں پیدا ہوتے ہیں ان سے انسان خداتعالیٰ کی د رگاہ میںمواخذ ہ کے قابل نہیں ہو ا کرتابلکہ ایسے شیطانی خیالوں کی پیروی سے پکڑاجاتاہے ۲؎ وہ خیالات جو اندر ہوتے ہیں وہ انسانی طاقت سے باہر اور مرفوع القلم ہیں ۔بے صبری نہ چاہیے ۔جلدی سے یہ بات طے نہیں ہوا کرتی۔وقت آئیگاتو دور ہونگی۔توبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور اعمال میں اصلاح کریں۔ایسے خیالات کا تخم زندگی کے کسی گذشتہ حصہ میں بویا جاتا ہے تو پیدا ہوتے ہیں اور جب دور ہونے لگتے ہیں تو یکدفعہ ہی دور ہو جاتے ہیں خبر بھی نہیں ہوتی جیسے ہچکی کی بیماری کہ جب جانے لگے تو ایک دم ہی چلی جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتا۔ گھبرانے سے اور آفت پیداہوتی ہے۔آرام سے خدا سے مدد مانگے۔ خدا کی بارگا ہ کے سب کام آرام ہی سے ہوتے ہیں۔جلدی وہاں منظور نہیں ہوتی اور نہ کوئی ایسی مرض ہے کہ جس کا علاج نہ ہو۔ ہاں صبر سے لگا رہے اور خداکی آزمائش نہ کرے ۔جب خدا کی آزمائش کرتا ہے تو خود آزمائش میں پڑتا ہے اور نوبت ہلاکت تک آجاتی ہے ۔ قابل نہیں ہو ا کرتابلکہ ایسے شیطانی خیالوں کی پیروی سے پکڑاجاتاہے ۲؎ وہ خیالات جو اندر ہوتے ہیں وہ انسانی طاقت سے باہر اور مرفوع القلم ہیں ۔بے صبری نہ چاہیے ۔جلدی سے یہ بات طے نہیں ہوا کرتی۔وقت آئیگاتو دور ہونگی۔توبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور اعمال میں اصلاح کریں۔ایسے خیالات کا تخم زندگی کے کسی گذشتہ حصہ میں بویا جاتا ہے تو پیدا ہوتے ہیں اور جب دور ہونے لگتے ہیں تو یکدفعہ ہی دور ہو جاتے ہیں خبر بھی نہیں ہوتی جیسے ہچکی کی بیماری کہ جب جانے لگے تو ایک دم ہی چلی جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتا۔ گھبرانے سے اور آفت پیداہوتی ہے۔آرام سے خدا سے مدد مانگے۔ خدا کی بارگا ہ کے سب کام آرام ہی سے ہوتے ہیں۔جلدی وہاں منظور نہیں ہوتی اور نہ کوئی ایسی مرض ہے کہ جس کا علاج نہ ہو۔ ہاں صبر سے لگا رہے اور خداکی آزمائش نہ کرے ۔جب خدا کی آزمائش کرتا ہے تو خود آزمائش میں پڑتا ہے اور نوبت ہلاکت تک آجاتی ہے ۔ صحابہ کرامؓ کا بے نظیر نمونہ جہلم کے مقدمہ کی نسبت فرمایا :خدا کی طرف سے جو معلوم ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ اسباب کیا شئے ہے کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری راہ میں جاوگے تو مراغما کثیرا پائوگے ۔صحتِ نیت سے جو قدم اٹھاتا ہے خدا اس کے ساتھ ہو تا ہے بلکہ اگر انسان بیمار ہو تو اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے۔ صحابہؓ کی نظیر دیکھ لو دراصل صحابہ کرام ؓ کے نمونے ایسے ہیں کہ کل ابنیا کی نظیر نہیں ۔خدا کو تو عمل ہی پسند ہیں ۔انہوں نے بکریوں کی طرح اپنی جانیں دیں اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے نبوت کی ایک ہیکل آدم علیہ اسلام سے چلی آتی تھی اور سمجھ نہ آتی تھی مگرصحانہ کرامؓنے چمکاکر دکھلا دی اور بتلا دیا کہ صدق اور وفا اسے کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰؑ کا تو حال ہی نہ پوچھو موسٰیؑ کو کس نے فروخت نہ کیا مگر عیسٰؑی ان کے حواریوں نے تیس روپے لے کر فروخت کر دیا قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ حواریوں کو عیسٰی ؑکی صداقت پر شک تھا جبھی تو مائدہ مانگااور کہا ونعلم ان قد ان قد صدقتنا تاکہ تیرا سچا اور جھوٹا ہو نا ثابت ہو جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ مائدہ سے بیشتر ان کی حالت نعلم کی نہ تھی پھر جیسی بے آرامی کی