اُس وقت وہ لوہا آگ ہی کے ہم شکل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح پر جب ایک راستباز بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے اعلیٰ در جہ پر پہنچ کر فنا فی اللہ ہوجاتا ہے اور کمال درجہ کی نیستی ظہور پاتی ہے اس وقت وہ ایک نمونہ خدا کا ہوتا ہے اور حقیقی طور پر وہ اس وقت کہلاتا ہے ۔ اَنْتَ مِنِّیْ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو دُعا سے ملتا ہے ۔ یاد رکھو دُ عا جیسی کوئی چیز نہیں ہے اِس لیے مومن کاکام ہے کہ ہمیشہ دُعا میں لگا رہے اور اس استقلال اور صبر کے ساتھ دُعا کرے کہ اس کو کمال کے درجہ تک پہنچا دے ۔اپنی طرف سے کوئی کمی اور دقیقہ فروگذاشت نہ کرے اور اس بات کی بھی پراہ نہ کرے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا بلکہ ؎
گر نبا شد بدوست راہ بُردن شرطِ عشق است درطلب مُردن
جب انسان اس حد تک دُعا کو پہنچاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس دُعا کا جواب دیتا ہے جیسا کہ اُس نے وعدہ فرمایا ہے
اد عونی استجب لکم (المومن:۶۱)
یعنی تم مجھے پکارو مَیں تمہیں جواب دو گا اور تمہاری دُعا قبول کروں گا ۔حقیقت میں دُعا کرنا بڑا ہی مشکل ہے ۔جب تک انسان پورے صدق و وفا کے ساتھ اور صبر اور استقلال سے دُعا میں لگا نہ رہے تو کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں جو دُعا کرتے ہیں مگر بڑی بے دِلی اور عجلت سے چاہتے ہیں کہ ایک ہی دن میںاُن کی دُعامثمر بہ ثمرات ہو جاوے حلانکہ یہ امر سنت اللہ کے خلاف ہے اس نے ہر کام کے لئے اوقات مقرر فر مائے ہیں اور جس قدر کام دنیا میں ہو رہے ہیں وہ تدریجی ہیں ۔ اگرچہ وہ قادر ہے کہ ایک طرفۃ العین میں جو چاہے کر دے اور ایک کُنْ سے سب کچھ ہوجا تا ہے ۔مگر دُنیا میں اُس نے اپنا یہی قانون رکھا ہے ۔ اس لیے دُعا کرتے وقت آدمی کو اس کے نتیجہ کے ظاہر ہونے کے لیے گھبرانا نہیں چاہیئے ۔
اپنی زبان میں دُعا کرنے کی حکمت
یہ بھی یاد رکھو دُعا اپنی زبان میں بھی کر سکتے ہو بلکہ چاہیئے کہ مسنون اَدعیہ کے بعد اپنی زبان میں آدمی دُعا کرے کیونکہ اس زبان میں وہ پُورے طور پر اپنے خیلات اور حالات کا اظہار کر سکتا ہے اِس زبان میں وہ قادر ہوتاہے ۔
دُعا نماز کا مغز اور رُوح ہے اور رسمی نماز جب تک اس میں رُوح نہ ہو کچھ نہیں اور رُوح کے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گریہ و بکا اور خشوع و خضوع ہواور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حالت کو بخوبی بیان کرے اور ایک اضطراب اور قلق اس کے دل ہو اور یہ بات اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اپنی زبان میں انسان اپنے مطالب کو پیش نہ کرے ۔غرض دعا کے ساتھ صدق اور وفا کو طلب کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت میں وفاداری کے ساتھ فنا ہو کر کامل نیستی کی صورت اختیار کرے اس نیستی سے ایک ہستی پیدا ہوتی ہے جس میں وہ اِس بات کا حقدار ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اُسے کہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ۔