رعایتِ اسباب بھی ضروری ہے اس سے ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہم استعمالِ اسباب سے منع کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ہم اسباب کے استعمال سے منع نہیں کرتے بلکہ رعایتِ اسباب بھی ضروری ہے کیونکہ انسانی بناوٹ بجائے خود اس رعایت کو چاہتی ہے لیکن اسباب کا استعمال اس حد تک نہ کرے کہ اُ ن کو خداکا شریک بنا دے بلکہ اُن کو بطورخادم سمجھے جیسے کسی کو بٹالہ جانا ہو تو وہ یکّہ یا ٹٹو کرایہ کرتا ہے تو اصل مقصد اس کا بٹالہ پہنچنا ہے نہ وہ ٹٹو یا یکّہ ۔پس اسباب پر کُلی بھروسہ نہ کرے یہ سمجھے کہ ان اسباب میں اللہ تعالیٰ نے کچھ تاثیریں رکھی ہیں اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو وہ تاثیریں بیکار ہوجائیں اور کوئی نفع نہ دیں ۔ اسی کے موافق ہے جو مجھے الہام ہوا ہے۔ رَبِّ کُلُّ شیْئٍ خَادِمُکَ اسباب پرستی شرک ہے بُت پرستوں کا شرک تو موٹا ہو تا ہے کہ پتھر بنا کر پو جا کر تے ہیں یا کسی درخت یا کسی اور شئے کی پرستش کر تے ہیں اس کو تو ہر ایک عقلمندسمجھ سکتا ہے کہ یہ باطل ہے یہ زما نہ اس قسم کی بُت پرستی کا نہیں ہے بلکہ اسباب پرستی کا زمانہ ہے اگر کوئی بالکل ہا تھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے اور سُست ہو جاوے تو اس پر خداکی لعنت ہوتی ہے لیکن جو اسباب کو خدا بنا لیتا ہے وہ بھی ہلاک ہو جا تا ہے۔میں سچ کہتا ہو ں کہ اس وقت یو رپ دو شرکو ں میںمبتلا ہے ایک تو مردہ کی پرستش کرر ہا ہے اور جو اس سے بچے ہیں اورمذہب سے آزاد ہو گئے ہیں وہ اسباب کی پرستش کر رہیں اور اس طرح یہ اسباب پرستی مرض دِق کی طرح لگی ہوئی ہے اور یورپ کی تقلید نے اس ملک کے نو جوانوں اورنو تعلیم یا فتہ لو گو ں کو بھی ایسی مرض میں مبتلا کر دیا ہے وہ اب سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ ہم اسلام سے باہر جا رہے ہیں اور خدا پرستی کو چھوڑ کر اسباب پرستی کے دِق میں مبتلا ہو رہے ہیں۔یہ دِق دور نہیں ہو سکتی اور اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے دل میں خدا کی ایک نالی نہ ہو جو خدا تعالیٰ کے فیض اور اس کے اثر کو اس تک پہنچاتی ہے اور یہ نا لی اس وقت پیدا ہو تی ہے جب انسان ایک منکسرالنفس ہو جا ئے اوراپنی ہستی کو بالکل خالی سمجھ لے۔ جس کو فنا نظری کہتے ہیں۔ فنا کی حقیقت فنا کی دو قسمیں ہیں ۔ایک فنا حقیقی ہوتی ہے جیسے وجودی مانتے ہیں کہ سب خدا ہی ہیں یہ تو بالکل باطل اور غلط ہے اور یہ شرک ہے لیکن دوسری قسم کی فنا کی فنا نظری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا شدید اور گہرا تعلق ہوکہ اس کے بغیر ہم کچھ چیز ہی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں ہستی ہو باقی سب ہیچ اور فانی ۔ یہ فنا اتمّ کا درجہ توحید کے اعلیٰ مرتبہ پر حاصل ہوتا ہے اور توحید کامل ہی اس درجہ پر ہوتی ہے ۔ جو انسان اس درجہ پر پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کچھ ایسا کھو یاجاتا ہے کہ اس کا اپنا وجود بالکل نیست و نابود ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم کیا جاوے کہ سُرخ آگ کے انگارے کی طرح ہو جاوے ۔