قانون ہے کہ وہ نفوسِ انبیاء کی طرح دُنیا میں بہت سے نفاسِ قدسیہ ایسے پیدا کر تا ہے جو فطرتاً استقامت رکھتے ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھو کہ فطرتاً انسان تین قسم کے ہو تے ہیں ایک فطرتاًظالم لنفسہٖ دوسرے مقتصد کچھ نیکی سے بہرہ ور اور کچھ برائی سے آلودہ ۔سوم بُرے کاموں سے متنفر اور سابق بالخیرات ۔پس یہ آخری سلسلہ ایسا ہو تا ہے کہ اجتباء اوراصطفاء کے مراتب پر پہنچتے ہیں اور انبیاء علیہ السلام کا گروہ اسی پاک سلسلہ میں سے ہو تا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے ۔دُنیا ایسے لوگو ں سے خالی نہیں ۔
بعض لوگ دُعا کی در خواست کر تے ہیں کہ میرے لئے دُعا کرو۔ مگر افسوس ہے کہ وہ دُعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہو تے ۔عنایت علی نے دُعا کی ضرورت سمجھی اور خواجہ علی کو بھیج دیا کہ آپ جا کر دُعا کرائیں ۔کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا ۔جبتک دُعا کرانے والااپنے اندر ایک صلاحیت اوراتّباع کی عادت نہ ڈال دُعا کارگر نہیں ہو سکتی۔مریض اگر طبیب کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتا ممکن نہیں کہ فائدہ اُٹھا سکے۔جیسے مریض کو ضروری ہے کہ استقامت اور استقلال کے ساتھ طبیب کی رائے پرچلے تو فائدہ اُٹھا ئے گا ۔ایسے ہی دُعا کرانے والے کے لئے آداب اور طریق ہیں ۔تذکرہ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دُعا کی خواہیش کی۔بزرگ نے فرمایا کہ دُودھ چاول لائو ۔وہ شخص حیران ہوا۔آخر وہ لایا۔ بزرگ نے دُعا کی اور اس شخص کا کا م ہو گیا ۔آخر اسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کر نے کے لئے تھا۔ایسا ہی باوافرید صاحب کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا قبالہ گم ہو ا اور وہ دُعا کے لئے آپ کے پا س آیا تو آپ نے فر مایا کہ مجھے حلوہ کھلائو اور وہ قبالہ حلوائی کی دو کان سے مل گیا۔
ان با توں کے بیان کر نے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دُعا کرنے والے اور کر انے والے میں ایک تعلق نہ ہو ۔متاثر نہیں ہو تی۔غرض جب یک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہو اور دُعا کر نے والے کا قلق دُعا کرانے والے کا قلق نہ ہو جائے کچھ اثرنہیں کرتی ۔بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دُعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہو تے اور دُعا کا کوئی بیّن فائد ہ محسوس نہ کر کے خدائے تعالیٰ پر بدظن ہو جا تے ہیں اور اپنی حالت کو قابلِ رحم بنالیتے ہیں ۔
بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دُعا کرو یا دُعا کرائو۔ پا کیزگی اور طہارت پیدا کرو۔استقامت چاہو اور تو بہ کے ساتھ گرِجائو کیو نکہ یہی استقامت ہے۔اس وقت دُعا قبو لیت، نماز میںلذت پیدا ہو گی۔
ذالک فضل اللہ یو تیہ