جس کو نماز کہتے ہیں ۔ نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دُعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعامِ الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے ،کہا گیا ہے کہ اللہ اسمِ اعظم ہے اللہ تعالیٰ نے تمام صفا ت کو اس کے تابع رکھا ہے ۔اب ذرا غور کرو ۔نماز کی ابتداء اذان سے شروع ہوتی ہے ۔اذان اللہ اکبرسے شروع ہوتی ہے ۔یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لا الہ الا اللہ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت کو ہی ہے کہ اس میں اوّل و آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اَور ۔مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم ور ملّت میں نہیں ہے ۔پس نماز جو دُعا ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے مقدم رکھا ہے ۔ایسا ہی انسان کا اسمِ اعظم استقامت ہے ۔ اسمِ اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کملات حاصل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اھدنا الصراط المستقیم میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا الذین قالو ربنا اللہ ثم استقامو اتتنزل علیھم الملئکۃ الا تخا فوا ولا تح زنو ا (حٰم السجدہ :۳۱ ) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسمِ اعظم کے نیچے جب بیضہ بشریت رکھا گیا ۔پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن ان کو نہیں رہتا میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے ۔ استقامت سے کیا مراد ہے ؟ہرایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے ۔مثلاً دُور بین کے اجزاء کو اگرجُدا جُدا کر کے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی ۔غرض وضع الشئی فی محلہ کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے ۔ پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اُسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کملات پیدا نہیں کر سکتی ۔دُعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسمِ اعظم جمع ہوں ۔اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا وہوس ہی کا بُت کیوں نہ ہو جب یہ حالت ہوجائے تو اس وقت ادعونی استجب لکم (المومن :۶۱) کا مزا آجاتا ہے ۔ پس مَیںچاہتا ہوں کہ آپ استقامت کے حصول کے لیے مجاہدہ کریں اور ریاضت سے اُسے پائیں کیونکہ وہ انسان کو ایسی حالت پر پہنچا دیتی ہے جہاں اُس کی قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے ۔اس وقت بہت سے لوگ دُنیا میں موجود ہیں جو عدم قبولیتِ دُعا کےشناکی ہیں ۔لیکن مَیں کہتاہوں کہ افسوس تو یہ ہے کہ جب تک وہ استقامت پیدا نہ کریں دُعا کی قبولیت کی لذّت کو کیونکر پا سکیں گے۔قبولیتِ دُعا کے نشان ہم اسی دُنیا میں