بھی وہ کامیاب نہیں ہو تے اور بجائے فائدہ کے نقصان اُٹھا تے ہیں ۔اسلام پر غور کرو گے تو معلام ہو گا کہ نا کامی صرف جھو ٹے ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہے۔جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے التفات کم ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہو تا ہے جو اس کو نا مراد اور نا کام بنا دیتا ہے۔خصوصاً ان لو گوں کو جوبصیرت رکھتے ہیں جب وہ دنیا کے مقا صد کی طرف آپنے تمام جوش اور ارادے کے ساتھ جھُک جا تے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کو نا مراد کر دیتا ہے۔لیکن سعیدوں کو وہ پاک اصول پیش ِنظر رہتا ہے جو احساسِ مو ت کا اصول ہے ۔وہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح ماں بآپ کا انتقال ہو گیا ہے یا جس طرح پر اور کوئی بزرگِ خاندان فوت ہو گیا ہے اسی طرح پر مجھ کو ایک دن مرنا ہے اور بعض اوقات آپنی عمر پر خیال کرکے کہ بڑ ھا پا آگیا ہے اور موت کے دن قریب ہیں خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔بعض خاندان ایسے ہو تے ہیں کہ ان میں عمریں علی العموم ایک خاص مقدار تک مثلاً۵۰ یا ۶۰ تک پہنچتے ہیں۔بٹالہ میں میاں صاحب کا جو خاندان ہے اُس کی عمریں بھی علی العموم اسی تک پہنچتی ہیں۔ اس طرح پر آپنے خاندان کی عمروں کا اندازہ اور لحاظ بھی انسان کو احساسِ موت کی طرف لے جا تا ہے۔ غرض یہ بات خوب ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ آخر ایک نہ ایک دن دُنیا اور اس کی لذّتوں کو چھوڑنا ہے تو پھر کیوں نہ انسان اس وقت سے پہلے ہی ان لذّات کے ناجائز طریقِ حصول چھوڑ دے ۔موت نے بڑے بڑے راستبازوں اور مقبولوں کو نہیں چھوڑا اور وہ نوجوانوں یا بڑے سے بڑے دولت مند اور بزرگ کی پرواہ نہیں کرتی ۔پھر تم کو کیوں چھوڑنے لگی ۔پس دنیا اور اس کی راحتوں کو زندگی کے منجملہ اسباب سے سمجھو اور خدا تعالیٰ کی عبادت کا ذریعہ۔ سعدی نے اس مضمون کو یُوں ادا کیا ہے ؎ خوردن برائے زیستن وذکر کردن است تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است یہ نہ سمجھو کہ خدا ہم سے خواہ مخواہ خوش ہوجائے اور ہم احتظاظ میں رہیں مگر ایسے اندھوں کو اگر خدا کی طرف سے ہی پروانہ آجائے تو وہ ان لذّتوں کو جوجسمانی خواہشوں اور ارادوں کی پیروی میں سمجھتے ہیں نہ چھوڑیں گے اور ان کو اس لذّت پر جو ایک مومن کو خدا میں ملتی ہے ترجیح دیں گے ۔خدا تعالیٰ کا پروانہ موجود ہے جس کانام قرآن شریف ہے جو جنت اور ابدی آرام کا وعدہ دیتا ہے مگر اس کی نعمتوں کے وعدہ پر چنداں لحاظ نہیں کیا جاتا ۔اور عارضی اور خیالی خوشیوں اور راحتوں کی جستجو میں کسقدر تکلیفیں غافل انسان اُٹھاتا اور سختیاں برداشت کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذرا سی مشکل کو دیکھ کر بھی گھبرا اُٹھتا اور بد ظنی شروع کر دیتا ہے۔کاش وہ ان فانی لذّتوں کے مقابلہ میں ان اَبدی اور مستقل خو شیوں کا اندازہ کر سکتا ہے ۔ان مشکلات اور تکا لیف پر فتح پانے کے لیے ایک کامل اور خطا نہ کرنے والا نسخہ موجود ہے جو کڑوڑ ہا راستبازوں کا تجربہ کردہ ہے ۔وہ کیا ہے؟ وہ وہی نسخہ ہے