( ھود:۱۱۳) تو لکھاہے کہ آپ کے کوئی سفید بال نہ تھا پھر سفید بال آنے لگے تو آپ نے فرمایا مجھے سور ئہ ہودنے بوڑھا کر دیا غرض یہ ہے کہ جب تک انسان موت کا احساس نہ کرے وہ نیکیوں کی طرف جھک نہیں سکتا۔ میَں نے بتلایا ہے کہ گناہ غیر اللہ کی محبت دل میںپیدا ہونے سے پیداہوتا ہے اور رفتہ رفتہ دل پر غلبہ کر لیتا ہے ـ۔ پسںگناہ سے بچنے ا ور محفوظ رہنے کے لیے یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے اورخداے تعالیٰ کے عجائباتِ قدرت میںغور کرتا رہے کیونکہ اس محّبتِ الہٰی اور ایمان بڑھتا ہے اور جب خداہے تعالی کی محبت دل میں پیدا ہو جا ے تووہ گناہ کو جلا کر بھسم کر جاتی ہے ـ۔ دوسرا ذریعہ گناہ سے بچنے کا احساس ِموت ہے ۔اگر انسان موت کو آپنے سامنے رکھے تو وہ ان بدکاریوںاور کوتاہ اندیشیوں سے بازآجاے اورخداتعالی پر اسے ایک نیاایمان حاصل ہو آپنے سابقہ گناہوںپر توبہ اور نادم ہونے کا موقعہ ملے ۔ انسان عاجزکی ہستی کیا ہے ؟صرف ایک دم پر انحصار ہے ۔ پھر کیوںوہ آخرت کا فکر نہیں کرتا اور موت سے نہیںڈرتا اور نفسانی اور حیوانی جذبات کا میطیع اور غلام ہو کر عمر ضائع کر دیتا ہے ۔میں نے دیکھاہے کہ ہندووںکو بھی احساسِ موت ہوا ہے ۔بٹالہ میںکشن چندنام ایک بھنڈاری ستر یا بہتربرس کی عمر کا تھا ۔ اس وقت اس نے گھربار سب کچھ چھوڑدیا اور کانشی میںجا کر رہنے لگا اور وہا ںہی مرگیا۔یہ صرف اس لیے کہ وہاںمرنے سے اس کی موکش ہو گی مگر یہ خیال اس کا باط تھا۔لیکن اس سے اتنا تو مفید نیتجہ ہم نکال سکتے ہیںکہ اس نے احساسِ موت کیا ار احساس موت انسان کو دنیاکی لذات میں با لکل مہنمک ہونے سے اور خدا سے دور جا پڑنے سے بچا لیتا ہے ۔یہ بات کہ کانشی میں مرنا مکتی کا باعث ہو گا یہ اسی مخلوق پرستی کا پردہ تھا جو اس کے دل پر پڑاہواتھا مگر مجھے تو سنحت افسوس ہوتا ہے جبکہ میں دیکھتاہوںکہ مسلمان ہندووںکی طرح بھی احساسِ موت نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کودیکھوصرف اس ایک حکم نے کہ فاستقم کما امرت نے ہی بوڑھا کر دیا ۔ کس قدر احساسِ موت ہے ۔آپ کی یہ حالت کیوںہو ئی صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں۔ ورنہ رسول اللہﷺ کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اَور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ہاد ی کا مل اور قیامت تک کے لیے اور اس پر کُل دُنیا کے لیے مقرر فرمایا۔ مگر آپ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے اور قانونِ کتاب قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طر ح پر رسول ﷺ کی ز ندگی بھی فعلی کتاب ہے جو گویا قران کریم کی شرح اور تفسیر ہے ۔میرے تیس سال کی عمر میں ہی سفید بال نکل آئے تھے اور مرزا صاحب مرحوم میرے والد ابھی زندہ ہی تھے ۔ سفید بال بھی گویا ایک قسم کا نشان ِموت ہوتا ہے جب