میں مو ٹے الفاظ میں اس کو بیان کر تا ہوں گو یہ امر اس طر ح پر نہیں ہے مگر فوراً سمجھ میں آ سکتا ہے کہ جیسے ایک مردِ غیّورکی غیرت تقا ضا نہیں کر تی کہ وہ آپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیداکر تے ہو ئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مر د ایسی حالت میںاس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بعض اوقات ایسی وارداتیں ہو جا تی ہیں ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کی ہے ۔جب عبو دیت اور دُعا خاص اسی ذات کے مّد مقابل ہیں۔ وہ پسند نہیں کر سکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جائے یا پکارا جائے۔
پس خوب یاد رکھو اور پھریاد رکھو !کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کا نٹا ہے ۔نماز اور تو حید کچھ ہی ہو (کیو نکہ تو حید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے)اسی وقت بے بر کت اور بے سود ہو تی ہے جب اس میں نیستی اور تذلّل کی رُوح اورحنیف دل نہ ہو!!سنو وہ دُعا جس کے لئے
اسعونی استجب لکم (المومن :۶۱)
فر مایا ہے اس کے لئے یہی سچی رُوح مطلوب ہے اگر اس تضّرع اور خشوع میں حقیقت کی رُوح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے۔پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیںہے؟ یہ ایک غلط فہمی ہے ۔ شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے ۔ اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ہے ؟یااسباب دعا نہیں ؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے او ردعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ!!!
انسان کی ظاہری بناوٹ؛اس کے دو ہاتھ دو پاوں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا رہنماء ہے ۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجد ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ
تعا ونوا علی البروالتقوی(المائدہ ۳ )؎
کے معانی سمجھنے میں دیکھے ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ تلاشںاسباب بھی بذریع دعا کرو۔ امدادباہمی میں نہں سمجھتا کہ جب میں تمہارے جسم کے انداراللہ تعالیکا قائم کردہ سلسلہ اور رہنما ء سلسلہ دیکھتا ہوں ۔تم اس سے انکار کرو۔اللہ تعالی نے اس بات کو اعر بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لیے انبیاء علیہم اسلام کا اک سلسلہ دنیا میں قائم کیا ۔اللہ تعالی اس بات پر قادر تھا۔اعر قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر اتا ہے کہ و ہ من انصاری الی اللہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ کیا وہ ایک ٹکٹرگدا فقیر کء طرحبولتے ہیں نہں من انصاری الی اللہ (ال عمران :۵۳) کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ اللہ تعالی پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالے کا وعدہ
انا لننصر رسلنا والذینامنوا فی الحیوتہ ا لدنیا (المومن:۵۲)
ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے میں کہتا ہو ں کہ دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیو نکر مدد دے سکتا