روشن چراغ رکھا ہو ا ہے تا ہے اور یہ درجہ کا مل تذلّل اور کا مل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حا صل ہو تا ہے پھر گنا ہ کا خیال اُسے کیو نکر آسکتا ہے اور انکا ر اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا فحشاء طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی غرض اسے ایسی لذت اور سرور حاصل ہو تا ہے کہ میں سمجھ نہیں سکتا کہ سے کیو نکربیان کروں ۔
پھر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دُعا سے حاصل ہو تی ہے غیر اللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے ۔کیو نکر یہ مر تبہ دعا کا اللہ ہی کے لئے ہے جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے ۔سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مومن اور سچا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ۔اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہو ں یا بیرونی سب کی سب للہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہو ئی ہوں۔جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے۔پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حر کت و سکون تک کو اسی انجن کی طاقت عظمیٰ کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیو نکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہو سکتا ہے؟ اور اپنے آپ کو
اِنّیِْ وَجَّھْتُ وَجھِیَ لِلَّذِیْ فطر السموات ولارض(الانعام:۸۰)
کہتے وقت حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے مُنہ سے کہتا ہے دل سے بھی اُدھر کی طرف متوجہ ہو تو لا ریب وہ مسلم ہے ۔وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یا د رکھے کہ بڑا ہی بد قسمت اور محروم ہے کیو نکر اس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے ۔ترکِ نماز کی عادت اور روُح اور دل کی طاقتیں بھی (اس درخت کی طرح جس کی شاخیں ابتداًء ایک طرف کر دی جائیں اور پر ورش پا لیں)ادھر ہی جھُک جا تی ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیداہو کر اُسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے ۔جیسے وہ شاخیں پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتیں۔اسی طرح پر وہ دل اور رُوح دن بدن خداتعالیٰ سے دُور ہو تے جاتے ہیں ۔پس یہ بڑی خطر نا ک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے۔ اسی لیے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے تا کہ اوّلاً وہ ایک عادت راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الیٰ اللہ کا خیال ہو ۔پھر رفتہ رفتہ وہ وقت آجاتا ہے کہ انقطاعِ کلّی کی حالت میں انسان ایک نُور اور ایک لذّت کا وارث ہو جا تا ہے۔
میں ا س امرکو پھر تا کید سے کہتا ہو ں ۔افسوس ہے مجھے وہ لفظ نہیں ملتے جس میں مَیں غیر اللہ کی طرف رجوع کر نے کی بُرا ئیاں بیان کر سکوں ۔لوگوں کے پاس جا کر منّت و خوشامد کر تے ہیں ۔یہ بات خدائے تعالیٰ کی غیرت کو ہوش میں لاتی ہے (کیونکر یہ تو لوگوں کی نماز ہے)پس وہ اس سے ہٹتا اور اُسے دُور پھینک دیتاہے۔