دراصل روُ حانی نشست وبر خا ست کے اظلا ل ہیں ۔
انسان کو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو نا پڑ تا ہے اور قیام بھی آ دابِ خد متگا ر ان میں سے ہے ۔رکو ع جو دوسرا حصّہ ہے بتلاتا ہے کہ گو یا طیا ری ہے کہ وہ تعمیل حکم کے لیے کس قدر گر دن جھکا تا ہے ۔اور سجدہ کمال ادب اور کمال تذللّ اور نیستی کو جو عبادت کا مقصو د ہے ظاہر کر تا ہے ۔یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یا داشت کے مقرر کر دیئے ہیں ۔اور جسم کو باطنی طر یق سے حصّہ دینے کی خا طر اُن کو مقرر کیا ہے ۔علاوہ ازیں باطنی طر یق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھد یا ہے ۔اب اگرظاہری طر یق میں (جو اندونی اورباطنی طر یق کا ایک عکس ہے )صرف نقال کی طرح نقلیں اُتا ری جائیں اور اُسے ایک بار گر اں سمجھ کر کر اُ تا ر پھینکنے کی کو شش کی جا وے تو تم ہی بتلائو اس میں کیا لذّت اور حظ آ سکتا ہے۔اور جب تک لذّت اور سرور نہ آئے اُ س کی حقیقت کیو نکر متحقق ہو گی اور یہ اوقت ہو گا جبکہ روُح بھی ہمہ نیستی اور تذلّل تام ہو کر آستانہ الوہیّت پر گر ے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بو لے۔ اس وقت ایک سرور اور نُور اور تسکین حاصل ہو تی ہے۔
میں اس کو اور کھو ل کر کہنا چاہتا ہو ں کہ انسان جس قدر مراتب طے کر کے انسان ہو تا ہے ۔یعنی کہاں نُطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نُطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ اور پر نُطفہ کے بعد مختلف مداعج کے بعد بچہ پھر جوان ،بوڑھا۔غرض ان تمام عالموں میں جو اس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھچا رہے تو بھی وہ اس قابل ہو سکتا ہے کہ ربو بیت کے مقابل میں اپنی عبودیّت کو ڈال دے ۔غرض مد عا یہ ہے کہ نمازمیں لذّت اور سرور بھی عبودیّت اور ربو بیت کے ایک تعلق سے پیدا ہو تا ہے جب تک اپنے آپ کو عدمِ محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربو بیت کا ذاتی تقاضا ہ نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پر تَو اس پر نہیں پڑتا ۔اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ در جہ کی لذت حا صل ہو تی ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی حظّ نہیں ہے اس مقام پر انسان کی رُوح جب ہمہ نیستی ہو جا تی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اورما سوی اللہ سے اُسے انقطاع ہو جا تا ہے اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے ۔اس اتصال کے وقت ان دوجو شوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیّت کا جوش ہو تا ہے ۔ایک خاص کیفیت پیداہو تی ہے اس کا نام صلوٰۃ ہے جوسیّئا ت کو بھسم کر جا تی اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستے کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے ۔اور ہر قسم کے خس وخاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خارخس سے جو اس کی راہ میں ہو تے ہیںآگا ہ کر کے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جبکہ اُس کا اطلاق اس پر ہو تا ہے کیو نکہ اُس کے ہا تھ میں نہیں نہیں اُس کے شمعدانِ دل میں ایک