ہے لیکن اپنی زبا ن سے ایک خدا کا اقرار کرنے باجودبھی اللہ تعالیٰ کی صفات دوسرے کے لیے تجویز کرتے ہیں جیسے حضرت مسیح علیہ ا لسلا م کو محی اور ممیت مانتے ہیں عالم الغیب مانتے ہیں ۔الحیّ القیوم مانتے ہیں ۔کیا یہ شرک ہے یا نہیں ؟ یہ خطرناک شرک ہے جس نے عیسائی قوم کو تباہ کیا ہے اوراب مسلمانو ں نے اپنی بد قسمتی سے اُن کے اس قسم کے اعتقادوں کو اپنے اعتقادات میں داخل کر لیا ہے پس اس قسم کے صفات جو اللہ تعالیٰ کے ہیں کسی دوسرے انسا ن میں خواہ وہ نبی ہو یا ولی تجویزنہ کرے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال میں بھی کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔ دُنیا میں جو اسباب کا سلسلہ جاری ہے بعض لوگ اس حد تک اسباب پر ست ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ۔ تو حید کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ شرک فی الاسباب کا شائبہ باقی نہ رہے ۔ خواص کا الاشیاء کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جاوے کہ وہ خواص ان کے ذاتی ہی بلکہ یہ ماننا چاہیئے کہ وہ خواص بھی اللہ تعالیٰ نے اُن میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔جیسے تُر بد اسہال لاتی ہے یا سم االفار ہلاک کرتا ہے ۔اب یہ قوتیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخود نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں رکھے ہوئے ہیں ۔اگر وہ نکال لے تو پھرنہ تُر بد دست آور ہوسکتی ہے اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی خاصیت رکھ سکتا ہے نہ اُسے کھا کر کوئی مَر سکتا ہے۔ غرض اسباب کے سلسلہ کو حدِّ اعتدال سے نہ بڑھادے اور صفات وافعال الٰہیہ میں کسی کوشریک نہ کرے تو توحید کی حقیقت متحقق ہوگی اوراُ سے موحدّ کہیں گے لیکن اگر وہ صفات و افعال الٰہیہ میں کسی دوسرے کے لیے تجویز کرتا ہے تو وہ زبان سے گو کتنا ہی توحید کو ماننے کا اقرارکرے وہ موحدّ نہیں کہلا سکتا ۔ ایسے موحدّ تو آریہ بھی ہیں جو اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں لیکن باوجود اس اقرار کے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ روح اور مادہ کو خدا نے نہیں پیدا کیا ۔ وہ اپنے وجود اور قیام میں اللہ تعالیٰ کے محتاج نہیں گویا اپنی ذات میں ایک مستقل وجود رکھتے ہیں۔اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہو گا۔اسی طرح پر بہت سے لوگ ہیںجو شرک اور توحیدمیں فرق نہیں کرسکتے۔ ایسے افعال اور اعمال اُن سے سر زد ہوتے ہیں یا وہ اس قسم کے اعتقاد ات رکھتے ہیں جن میں صاف طور پرشرک پایا جاتا ہے مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہوجاتے یا فلاں کام درست نہ ہوتا ۔ پس انسان کو چاہیئے کہ اسباب کے سلسلہ کو حدِّ اعتدال سے نہ بڑھاوے اور صفات و افعال الٰہیہ میں کسی کو شریک نہ کرے۔
ا نسان میں جو قوتیں اور ملکات اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں ان میں وہ حد سے نہیں بڑھ سکتے مثلاً آنکھ اس نے دیکھنے کے لیے بنائی ہے اور کان سننے کے لیے ،زبان بولنے اور ذائقہ کے لیے ۔ اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کانوں سے بجائے سننے کہ دیکھنے کا کام لے۔ان اعضاء اور قویٰ کے افعال اور خواص محدود ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے افعال اور صفات محدود نہیں ہیں اور وہ لیس کمثلہ شیی ہے ۔غرض یہ توحید تب ہی پوری ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے واحد لا شریک یقین کیا جاوے اور انسان اپنی حقیقت کو ہا لکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت سمجھ لے ۔ کہ نہ میں اورنہ میری تدابیر اور اسباب کچھ چیز ہیں ۔