پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دُعا مانگنی چاہیئے کہ جس طرح اَور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذّتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھا دے کھا یا ہوا یاد رہتا ہے ۔دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سُرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اُسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بد شکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اس کے بالمقابل مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے ۔ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہوتو کچھ یاد نہیں رہتا ۔اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر سردی میں وضو کرکے خوابِ راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشو ں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ اُسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا ۔اس لذّت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے ۔پھر نماز میں لذّت کیونکر حاصل ہو۔
میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سُرور نہیں آتا تو وہ پَے در پَے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے۔دانشمند اور زیرک انسان اس سے فائد ہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دَوَام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سُرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذّت ہوتی ہے جس کاحا صل کرنا اس کا مقصود بالذّات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسی سُرورکو حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دُعا پید اہوکر وہ لذّت حاصل ہوتو مَیں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقینا یقینا وہ لذّت حاصل ہوجائے گی ۔پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اُس سے ہوتے ہیں اور احسان کے پیشِ نظر رہے۔
اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰ تِ (ہود:۱۱۵)
نیکیا ں بدیوں کو زائل کردیتی ہیں ۔پس اس حسنات کو اور لذّات کو دل میں رکھ کر دُعا کرے کہ وہ نماز جو صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے ۔یہ جو فرمایا ہے کہ
اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰ تِ ۔
یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کودُور کر تی ہیں یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ رُوح اور راستی کے ساتھ ۔وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔اُن کی رُوح مُردہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاںجو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجود یکہ معنی وہی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حُسن وجمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی رُوح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقینایقینا بُرائیوںکو دُور کردیتی ہے ۔نماز نشت و برخاست کا نام نہیں ۔نماز کا مغز اور رُوح وہ دُعا ہے جو ایک لذّت اور سُرور اپنے اندر رکھتی ہے۔ ارکانِ نماز