اس کا انشاء بھی فعلِ الٰہی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق کیساتھ دُعا انتہا کو پہنچے تو وہ قبول ہوجاتی ہے ۔دُعا ،صدقہ اور خیرات سے عذاب کاٹلناایک ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کااتفاق ہے اور کروڑ ہا صلحا ء اتقیا ء اور اولیااللہ کے ذاتی تجربے اس امر پر گواہ ہیں ۔
نماز کی لذّت و سرور
نماز کیا ہے ؟ یہ ایک خاص دُعا ہے ۔مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کا بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں ۔نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدائے تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے اس کی غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دُعا اور تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہو ۔بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ ا س طریق سے اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے ۔
مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیئے وہ مزا نہیں آتا ۔دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں لذّت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو ۔ جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیزکا مزہ نہیں اُٹھا سکتا اور وہ اسے بالکل تلخ یا پھیکا سمجھتا ہے اسی طرح سے وہ لوگ جو عبادتِ الٰہی میں حظّ اور لذّ ت نہیں پاتے انکو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہیئے ۔کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہا ہے دُنیا میںکوئی چیز ایسی نہیںہے جس میں خدائے تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذّت نہ رکھی ہو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کیلئے پیدا کیا تو پھر کیاوجہ ہے کہ اس کی عبادت میں اس کے لیے ایک لذّاور سُرور نہ ہو ؟ لذّت اورسُرور نہ ہو ؟ لذّت اور سُرور تو ہے مگر اس سے حظّ اُٹھانے والا بھی تو ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان جب عبادت ہی کے لیے پیدا ہوا ہے ، ضروری ہے کہ عبادت میں لذّت اور سُرور بھی درجہ غایت کا رکھتا ہو ۔اس بات کو ہم اپنے روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربہ سے خوب سمجھ سکتے ہیں مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نو شیدنی اشیاء انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں تو کیا اُن سے وہ ایک لذّت اور حظ نہیں پاتا ہے؟ کیا اُس ذائقہ اور مزے کے احساس کے لیے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں ؟ کیا وہ خوبصورت اشیاء کودیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات ، حیوانات ہوں یا انسان حظ نہی پاتا ؟ کیا دلِ خوش کُن اورسُریلی آوازوں سے اس کے کان محفوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اَوربھی اس امر کے اثبات کے لیے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذّ ت نہ ہو ۔