باتیں رکھ لے گا ۔جب یہ مسلّم امر ہے تو پھر مجھ سے یہ اُمید کیوں کی جاتی ہے کہ مَیں اُن کی ہربات مان لو قطع نظر اس کے کہ وہ بات غلط اور بیہودہ ہے ۔اگر مَیں اُن کا سارا طب ویابس مان لُوں تو پھر مَیں حَکَمْ کیسے ٹھہر سکتا ہوں ؟
کشفِ حقیقت کیلئے اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہیں
یہ ممکن ہی نہیں ۔افسوس یہ لوگ دل رکھتے ہیں مگردیکھتے نہیں ،کان رکتے ہیں پر سُنتے نہیں ۔ اُن کے لئے بہترین راہ اب یہی ہے کہ وہ رو رو کر دُعائیں کریںاور میرے متعلق کشفِ حقیقت کیلئے اللہ تعالیٰ ہی سے توفیق چاہیںاور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص محض احقاقِ حق کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے گا تو وہ میرے معاملہ کی سچائی پر خدا تعالیٰ سے اطلاع پائے گا اور اُس کا زنگ دور ہو جائے گا ۔بُجزاللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جو دلوں کو کھولے اور کشفِ حقائق کی قوت عطا کرے۔اسلام اس وقت مصیبت کی حالت میں ہے اور وہ ایک فناشدہ قوم کی حالت اختیار کر چکا ہے ۔ایسی حالت اور صورت میں ان لو گوں پر مجھے رونا آتاہے جو کہتے ہیں کہ الم کی اس تباہ شدہ حالت کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی ضروت نہیں ۔یہ لگ بیمار ہیں اور چایتے ہیں کہ ہلاک ہو جائیں ایسے بیماروں سے بڑھ کرکون واجب الرحم ہو سکتا ہے جو اپنی بیماری کوشفا سمجھے ۔یہی وہ مرض ہے جس کو لاعلاج کہنا چاہیے ۔اور ان کوگو ں پر اور بھی افسوس ہے جو خو د حدیثیں پڑھتے اور پڑ ھاتے ہیں کہ ہرصدی کے سر پر مجدد آیا کر تا ہے لیکن اس چودیں صدی کے مجدّد کا انکار کردیا ۔اور نہیں بتاتے کہ اس صدی پر جس میں سے بیس سال گزرگئے کوئی مجدّد آیا ہے کہ نہیں ؟خود پتہ نہیں دیتے اور آنے والے کا نام دجاّل رکھتے ہیں ۔ کیا اسلام کی اس خستہ حالی کامداوا اللہ تعالیٰ نے یہی کیا کہ بجائے ایک مصلح اور مردِ خدا کے بھیجنے کے ایک اور دجاّل کو بھیج دیا ؟یہ لوگ ایسے اعتقادرکھ کر خدا تعالیٰ کی اس پا ک کتاب قرآن مجید کی اور آنحضرت ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اِن پر رحم کرے۔
اس وقت تقویٰ بالکل اُٹھ گیاہے ۔اگر مُلاّ نوں کے پاس جائیں تو وہ اپنے ذاتی اور نفسانی اغراض کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔مسجدوں کو دوکانوں کا قائمقام سمجھتے ہیں ۔اگر چار روز روٹیا ں بند ہوجائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ نماز پڑھنا پڑھانا ہی چھوڑدیں ۔اس دین کے دو ہی بڑے حصّے تھے ایک تقویٰ دوسرے تائیدات سماویہ۔ مگر اب دیکھا جا تا ہے کہ یہ باتیں نہیں رہیں ۔عام طورپرتقویٰ نہیں رہااور تائیدات سماویہ کا یہ حال ہے کہ خود تسلیم کر بیٹھے ہیں کہ مدّت ہو ئی ان میں نہ کوئی نشانات ہیں نہ معجزات اور نہ تائیدات سماویہ کا کو ئی سلسلہ ہے ۔جلسئہ مذاہب میں مولوی محمد حسین نے صاف طورپر اقرار کیا تھا کہ اب معجزات اور نشانات دیکھانے والا کوئی نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ تقویٰ نہیں رہا کیونکہ نشانات تومتقی کو ملتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ دین کی تائید اور نصرت کرتا ہے مگر وہ نصرت تقویٰ کے بعد آتی ہے ۔آنحضرتﷺ کے نشانات اور معجزات اس لئے عظیم الشان قوت