صحیح ہونے کا وہ فیصلہ دے گا ورنہ حَکم کے معنے ہی کیا ہوئے ؟ جب اس کی کوئی بات ماننی ہی نہیں تو اُس کے حَکم ہونے سے فائدہ کیا؟ مسیح موعود بطور حَکم و عدل حَکَمْ کا لفظ صاف ظاہر کر تاہے کہ اس وقت اختلاف ہوگا اور ۷۳ فرقے موجود ہوں گے اورہر فرقہ اپنے مسلّمات کو جو اُس نے بنا رکھے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ جُھوٹے ہیں یا خیالی ،چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک اپنی جگہ یہ چاہے گا کہ اس کی بات ہی مانی جاوے اور جو کچھ وہ پیش کرتا ہے وہ سب کچھ تسلیم کرلیا جاوے ایسی صورت میں اس حَکم کو کیا کرنا ہوگا ۔ کیا وہ سب کی بات مان لے گا یا یہ کہ بعض ردّکریگا اور بعض کو تسلیم کرے گا غیر مقلّد تو راضی نہیں ہوگا جب تک اس کی پیش کردہ احادیث کا سارا مجموعہ وہ مان نہ لے اور ایسا ہی حنفی ،معتزلہ، شیعہ وغیرہ کُل فرقے تو تب ہی اُس سے راہوں گے کہ وہ ایک کی بات تسلیم کرے اور کوئی بھی ردّ نہ کرے اور یہ ناممکن ہے ۔ اگر یہ ہو کہ کوٹھڑی میں بیٹھا رہے گا اور اگر شیعہ اس کے پاس جائے گا تو اندر ہی اندر مخفی طور پر اُسے کہہ دیگا کہ تُو سچا ہے اور پھر سُنی اُس کے پاس جائے گا تو اُس کو کہہ دیگا کہ تُو سچا ہے ۔ تو پھر تو بجائے حَکم ہونے کہ وہ پکا منافق ہوا اور بجائے وحدت کی رُوح پھونکنے کے اور سچا اخلاص پیدا کرنے کے وہ نفاق پھیلانے والا ٹھہرا ۔مگر یہ بالکل غلط ہے ۔ آنے والا موعود حَکَمْ واقعی حَکَمْ ہو گا ۔ اُسکا فیصلہ قطعی اور یقینی ہے ایک نقل مشہور ہے کہ کسی عورت کی دو لڑکیاں تھیں ایک بیٹ میں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری بانگر میں اور وہ ہمیشہ سوچتی رہتی کہ دو میں سے ایک ہے نہیں اگر بارش زیادہ ہوگئی تو بیٹ والی نہیں ہے اور اگر نہ ہوئی تو بانگر والی نہیں ہے ۔یہی حال حَکَمْ کے آنے پر ہانا چاہیئے۔ وہ خود ساختہ اور موضوع باتوں کو ردّ کردیگا اور سچ کو لے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانام حَکَمْ رکھا گیا ہے ۔اسی لیے آثار میں آیا ہے کہ اُس پر کُفر کا فتویٰ دیا جاوے گا کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو ردّ کریگا وہی اُس پر کُفر کا فتویٰ دیگا ۔یہاں تک کہاہے کہ مسیح موعود ؑ کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اُٹھ کر کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا اِنَّ ھٰذَاالرَّجُلَ غَیَّرَ دِیْنَنَا۔ اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے ۔اس سے بڑھ کر اَور کیا ثبوت اس امر کا ہوگا کہ وہ بہت سی باتوں کو ردّ کردیگا جیسا کہ اُس کا منصب اُس کو اجازت دیگا ۔ غرض اس بات کو سرسری نظر سے ہر گز نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ غور کرنا چاہیئے کہ حَکَمْ عدل کا آنا اور اس کا نام دلالت کرتا ہے کہ وہ اختلاف کے وقت آئے گا اور اس اختلاف کو مٹائے گا ۔ ایک کو ردّ کریگا اور اندرونی غلطیوںکی اصلاح کریگا ۔ وہ اپنے نُورِ فراست اور خد اتعالیٰ کے اعلام والہام سے بعض ڈھیروں کے ڈھیر جلادیگا اور پکی اور محکم