اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا کہ حضرت مسیح ؑ کو دُنیا میں قیامت سے پہلے آنا تھاتو پھر یہ جواب اُنکا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟اُن کو تو کہنا چاہیئے تھا کہ مَیں دُنیا میں جب دوبارہ گیا تو اس وقت صلیب پرستی کا زور تھا اور میری الوہیت اور انبیت پر بھی شور مچا ہوا تھا مگر میں نے جاکر صلیبوں کو توڑا اورخنزیروں کو قتل کیا اور تیری توحید کو پھیلایا ۔نہ یہ جواب دیتے کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو خود نگران تھا ۔ کیا قیامت کے دن حضرت مسیح ؑ جُھوٹ بولیں گے؟
ان عقائد کی شناخت کہاں تک بیان کی جاوے جس پہلو اور جس مقام سے دیکھو قرآن شریف کی مخالفت نظر آئے گی ۔
پھر یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ دیکھا جاوے حضرت مسیح ؑ آسمان پر جاکر کہاں بیٹھے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں جوکر حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہیں اور یحیٰ علیہ السلام بالاتفاق وفات یافتہ ہیں ۔ پھر مُردوں میں زندہ کا کیا کام ہے؟
غرض کہا ںتک بیان کروں ایک غلطی ہو تو آدمی بیان کرے یہاں تو غلطیاں ہی غلطیاںبھری پڑی ہیں ۔باوجود ان غلطیوں کے تعصّب اور ضِدّ بڑھی ہوئی ہے اور اس ضد کے سبب سچ کے قبول کرنے میں عذر کر رہے ہیں ۔ہاں جس کے لیے خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہے اور اس کے حصّہ میں سعادت ہے وہ سمجھ رہاہے اور اس طرف آجاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے نیکی چاہتا ہے اس کے دل میں واعظ پیدا کر دیتا ہے جب تک دل میں واعظ نہ ہو کچھ نہیں ہوتا ۔اگر خدا کے قول کے خلاف کوئی قول ہوتو خداکو اس خلافِ قول کے ماننے میں کیا جواب دے گا ۔
احادیث کی تصحیح و تغلیط بذریعہ کشف
احادیث کے متعلق خود یہ تسلیم کر چکے ہیں ۔خصوصاً مولوی محمدحسین اپنے رسالہ میں شائع کر چکا ہے کہ اہلِ کشف احادیث کی صحت بذریعہ کشف کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حدیث محدثین کے اُصولوں کے موافق صحیح بھی ہوتو اہلِ کشف اُسے موضوع قرار دے سکتے ہیں اور موضوع کو صحیح ٹھہرا سکتے ہیں ا؎
جس حال میں اہلِ کشف احادیث کی صحت کے اس معیار کے پابند نہیں جو محدثین نے مقرر کیا ہے بلکہ وہ بذریعہ کشف اُن کی صحیح قراردادہ احادیث کو موضوع ٹھہرانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر جس کو حَکم بنایا گیا ہے اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا ؟ خدا تعالیٰ جو اُس کا نام حَکم رکھتا ہے یہ نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سارا طب ویابس جو اُس کے سامنے پیش کیا جاوے گا تسلیم نہیں کریگا بلکہ بہت سی باتوں کو ردّ کر د ے گا اور جو صحیح ہونگی اُن کے