نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ سچاہے۔
اب غور سے دیکھو کہ حضرت ابو بکرؓ نے اس وقت کوئی نشان یا معجزہ نہیں مانگا بلکہ سنتے ہی ایمان لے آئے اور دعویٰ خود آنحضرت ﷺکے مُنہ سے بھی نہیں سنا بلکہ ایک شخص کی زبانی سنا ار فوراََتسلیم کر لیا ۔ یہ کیسا زبردست ایمان ہے روایت بھی آنحضرت ﷺ کے نام سے سنکر اُس میں جھوٹ کا احتمال نہیں سمجھا ۔ ۱؎
دیکھو حضرت ابو بکرنے کوئی نشان نہیں مانگا ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کا نا م صدیق ہوا ۔ سچائی سے بھرا ہوا ۔صرف مُنہ دیکھ کر ہی پہچان لیا کہ یہ جھوٹا نہیں ہے۔ پس صادقوں کی شناخت اور اُن کا تسلیم کرنا کچھ مشکل امر تو نہیں ہو تا ۔ اُنکے نشانات ظاہر ہو تے ہیں لیکن کو رباطن اپنے آپکو شبہات اور خطرات میں مبتلا کر لیتے ہیں ۔وہ لوگ بڑے ہی بد قسمت ہو تے ہیں جو انتظار ہی میں اپنی عمر گزار دیتے ہیں اور پردہ برانداز ثبوت چاہتے ہیں۔ اُن کو معلوم نہیں کہ جیسا خود اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے ۔انکشاف کے بعد ایمان نفع نہیں دیتا۔ نفع میں وہی لوگ ہو تے ہیں اور سعادت مند وہی ہیں جو مخفی ہو نے کی حالت میں شناخت کر تے ہیں ۔
دیکھو جب تک لڑائی جاری ہوتی ہے اس وقت تک فوجوں کو تمغے ملتے ہیں اور خطاب ملتے ہیں لیکن جب امن ہوجا وے اس وقت اگر کوئی فوج چڑھائی کرے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ لُوٹنے کو آئے ہیں ۔
شیطان کی آخری جنگ
یہ زمانہ بھی رُوحانی لڑائی کا ہے ۔شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خداتعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اُس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے ۔مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے اب تھوڑا زمانہ ہے ابھی ثواب ملے گا لیکن عنقریب وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی سچائی کو آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر دکھائے گا۔وہ وقت ہو گا کہ ایمان ثواب کا موجب نہ ہوگا اور نہ توبہ کا دروازہ ہو نے کے مصداق ہو گا۔ اس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے ۔وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہو نا پڑیگا ۔ اُس کے دُنیاوی کا روبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائے گی اُس کو گالیاں سننی پڑیں گی۔ لعنتیں سُنے گا مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہا ں سے ملے گا ۔
لیکن جب دوسرا وقت آیا اور اس زور کے ساتھ دُنیا کا رجوع ہو اجیسے بلند ٹیلہ سے پانی نیچے گرتا ہے اور کوئی انکارکرنے والا ہی نظر نہ آیا اُس وقت اقرار کس پایۂ کا ہو گا اس وقت ماننا شجاعت کا کام نہیں۔ ثواب ہمیشہ دُکھ ہی کے زمانہ میں ہو تا ہے۔