پو رے انکشاف کے بعد ایمان لا کر کسی ثواب کی اُمید رکھنا غلطی ہے ۔اگر کوئی مٹھی کھول دی جاوے اور پھر کوئی بتاوے کہ اس میں فلاں چیز ہے تو اس کی کوئی قدر نہ ہو گی۔
پس پہلے تقویٰ سے تو کام لو اور قرآن شریف کو دیکھو کہ ثواب اسی میں ہے جب ساری باتیں کھل گئیں تو پھر کیا جو اس انتظار میں رہے کہ یہ دیکھوں اور وہ دیکھوں وہ ہمیشہ ایمان اور ثواب کے دائرہ سے خارج رہے ہیں۔
دیکھو اللہ تعالیٰ نے بعض کا نام سابق مہاجر اور انصار رکھا ہے اور اُن کو
رَضِیَ اللہ ُعَنْھُم ْوَرَضُوْاعَنْہُ
میں داخل کیا ہے یہ وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جو بعد میں ایمان لائے ان کا نام صرف ناس رکھا ہے جیسے فرما یا۔
اَذَا جَآ ئَ نَصْر ا للہ ِ والْفَتْحُ۔وَرَاَیْتَ انَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فَیْ دِیْنِاللہ ِ اَفْوَاجاََ (سورۃالنصر:۲‘۳)
یہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے اگر چہ وہ مسلمان تھے مگر ان کووہ مراتب نہیں ملے جو پہلے لو گو ں کو دئیے گئے۔پھر مہاجرین کی عزت سب سے زیا دہ تھی کیونکہ وہ لوگ اس وقت ایمان لائے جب ان کو معلوم نہ تھا کہ کامیابی ہو گی یا نہیں بلکہ ہر طرف سے مصائب اور مشکلات کا ایک طوفان آیا ہوا تھا اور کفر کا دریا بہتا تھا۔خاص مکہ میں مخالفت کی آگ بھڑک رہی تھی اور مسلمان ہو نے والوں کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں ،مگر انہوں نے ایسے وقت میں قبول کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنکی بڑی بڑی تعریفیں کیں اور بڑے بڑے انعامات اور فضلوں کا وارث اُن کو بنایا۔ پس ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ فلاں وقت آئے گا اور انکشاف ہو گا تو آفتاب کی طرح کھول کر دکھا دیگا مگر اس وقت ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔پیغمبروں کو ماننے والوں میں ثواب اَوَّ لُوْن کو سب سے بڑھ کر ملا ہے اور انکشاف کا زمانہ تو ضرور آتا ہے لیکن آخر اُن کا نام ناس ہی ہو تا ہے
(اس مقام پر مولانا مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی نے عرض کیا کہ
متیٰ ھٰذَا الْفَتْحُ
کے جواب میں یہی کہاکہ تمہارا ایمان اُس دن فائدہ نہ دیگا )فرمایا :۔
بیشک اس بات کوسمجھنا سعادت ہے جس نے اوّل زمانہ میں یہ نہیں پائی اُس کی کوئی قابلیت اور خوبی نہیں ۔جب خدانے کھول دیا اس وقت تو پتھر اور درخت بھی بولتے ہیں ۔زیا دہ قابلِقدر وہ شخص ہے جو اوّل قبول کرتا ہے جیسے حضرت ابو بکر ؓ نے قبول کیا آپنے کوئی معجزہ نہیں مانگا اور آپکے مُنہ سے ابھی سنا تھا کہ ایمان لے آئے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی تجارت پر گئے ہوئے تھے اور جب سفر سے واپس آئے تو ابھی مکہ میں نہیں پہنچے تھے کہ راستہ میں کوئی ایک شخص آپ ملا اور اس سے مکہ کے حالات پوچھے ۔اُس نے کہا کہ اور تو کوئی تا زہ خبر نہیں ۔سب سے بڑھ کر تازہ خبر یہی ہے کہ تمہارے دوست نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ سنکر کہا کہ اگر اُس نے