ہے کہ یہ نشان پورا ہوا ۔ یہاں تک کہ امریکہ میں بھی ہوا ۔ اوور دوسرے ممالک میں بھی پورا ہوا ۔ا ور اب وہی جو اس نشان کا آیاتِ مہدی میں سے ٹھہراتے تھے اس کے پورے ہونے پر اپنے ہی مُنّہ سے اس کی تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہی قابلِ اعتبار نہیں ۔اللہ تعالیٰ انکی حالت پر رحم کرے ۔ میری مخالفت کی یہ لعنت پڑتی ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کی بھی تکذیب کر بیٹھتے ہیں ۔ پھر مسیح موعود کے وقت کا ایک نشان طاعون کا تھا ۔ انجیل و توریت میں بھی یہ نشان موجود تھا اور قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشان مسیح موعود ؑ کا خدا تعالیٰ نے ٹھہرایا تھا چناچہ فرمایا وان من قریۃ الا نحن مھلکوھا (سورۃ بنی اسرائیل:۵۹) یہ باتیں معمولی نہیں ہیں بلکہ غور سے سمجھنے کے لائق ہیں اور اب دیکھ لو کہ کیا طاعون ملک میں ہوئی ہے یا نہیں ؟ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ مَیں نے جب طاعون کے پھیلنے کی پیشگوئی کی تو ملک میں اس کی ہنسی کی گئی اور اس اس پر ٹھٹھا کیا گیا ۔ لیکن اب ملک کی حالت اور طاعونی اموات کے نقشوں کو پڑھ کر بتائیں کیا یہ پیشگوئی پُوری ہوئی ہے یا نہیں ؟ یہ وہ باتیں ہیں جو سمجھنے کے لائق ہیں اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ایسا اعتراض تو کفار ہمیشہ سے نبیوں پر کرتے آئیں اور اللہ تعالیٰ کے ماموروں کوایسی باتیں مخالفوں سے سُننی پڑی تھیں ۔اصل بات یہ ہے کہ اگر اس قسم کی باتیں ہوں تو پھر قیامت کا نمونہ ہوجاوے اور اس دنیا کو وہ قیامت بنانا نہیں چاہتا ۔ ایمان بالغیب بھی کوئی چیز ہے اگر ایسا ہو تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا مثلاً اگر کوئی شخص سورج پر ایمان لاوے تو بتائو یہ ایمان اس کوکیا نفع دے گا ؟ ایمان ہمیشہ اسی صورت اور حالت میں مفید اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جب اس میں کوئی پہلو اخفاء کا بھی ہو لیکن جب کُھلی بات ہوتو پھر وہ مفید نہیں رہتا ۔ اولین کا مقام دیکھو اگر کوئی شخص پہلی رات کے چاند کو دیکھ کربتا دے تو اُس کی تیز بینی کی تو تعریف ہو گی لیکن اگر چودھوں رات کے چاند کو جو بدر ہو تا ہے دیکھ کر شور مچاوے کہ میں نے چاند کو دیکھ لیا ہے تو اس کو سوائے مجنوں کے اور کوئی خطاب نہیں ملیگا۔ اسی طرح پر ایمان میں فراست اور تقویٰ سے کا م لینا چاہئے ۔اور قرائن قویہ کو دیکھ کر تسلیم کر لینا مو من کا کام ہے ورنہ جب بالکل پردہ برانداز معاملہ ہو گیا اور سارے گو شے کھُل گئے اس وقت ایک خبیث سے خبیث انسان کو بھی اعتراف کرناپڑے گا ۔ میں اس سوال پربار بار اس لئے زور دیتا ہوںکہ لوگو ں کو معلوم نہیں کہ نشانوں کی فلاسفی کیاہے۔یہ یادرکھنا چاہئے جیسامیں نے ابھی کہا ہے خداتعالیٰ کبھی قیامت کا نظارہ یہاں قائم نہیں کرتا اور وہ غلطی کرتے ہیں جو ایسے نشان دیکھنے چاہتے ہیں یہ محرومی کے لچھن ہو تے ہیں ۔آنحضرت ﷺپر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے آئیں تو آپ نے یہی جواب دیا ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرََا رَّ سُوْ لاَََ (بنی اسرائیل ۹۴)