اخفاء ضرور ہے اس لیء اس خیال سے کہ وہم پیدا نہ ہو پر اور واضح الفاظ میں فرمایا۔
بشارۃ تلقھا النبیون
یبدی لک الرحمن میں لام بھی انتفاع کے لئے فرمایا دوسرے الہام واﷲ یعصمک من العدا میں اﷲ کا لفظ اس لئے رکھا کہ اﷲ اپنے جلال کو چاہتا ہے اور اس عصمت میں اظہار جلال مقصود تھا اس کو استعمال فرمایا جو اسم اعظم ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت
اس ضمن میں فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا
اناﷲ معنا (التوبہ : ۴۰)
اس معیت میں حصرت ابوبکر صدیق ؓبھی ہیں اور گویا کل جماعت آپ کی آگئی موسیٰ ؑنے یہ نہیں کہا بلکہ کہا
ان معی ربی (الشعراء : ۶۳)
اس میں کیا سر تھا کہ انہوں نے اپنے ہی ساتھ معیت کا اظہار کیا؟ اس میں یہ راز ہے کہ اﷲ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے رسول اﷲ ﷺ اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے لیکن موسیٰ ؑکی قوم شریر اور فاسق فاجر تھی۔آئے دن لڑنے اور پتھر مارنے کو تیار ہو جاتی تھی اس لئے ان کی طرف معیت کو منسوب نہیں کیا بلکہ اپنی ذات تک اسے رکھ ااس سے رسول اﷲ ﷺ کی عظمت اور علو مدارج کا اظہار مقصود ہے۔
ایمان‘عرفان میں کیسے تبدیل ہوتاہے
فرمایا :-
یہ پیشگوئیاں جو ہیں یہ ایمان کو قوی کر کے عرفان بنا دیتی ہیں۔نری باتوں سے ایمان قوی نہیں ہو سکتا جب تک اس مٰن قوت کی شعاعیں نہ پڑیں اور یہ اﷲ تعالیٰ کے ان نشانات سے پیدا ہوتی ہیں۔پس ان پیشگوئیوں کو خوب کان کھول کر سننا چاہئے دوسرے وقت جب یہ پوری ہوتی ہیں تو ایمان کی تقویت کا باعث ہو کر اس کو عرفان بنا دیتی ہیں۔اس لئے جو امر پیشگوئی پر مشتمل ہو میں اس کو ضرور سنا دیا کرتا ہوں اور میری غرض اس سے یہی ہوتی ہے۔یہ ایک نور بخشتی ہیں اور جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور نازل نہ ہو انسان غلطی میں پڑا رہتا ہے۔