دوسرے کو روپیہ۔مگر جس کو پیسہ ملا ہے وہ حق نہیں رکھتا کہ جھگڑا کرے بہشت والوں کو تو ابدی رہنا ہوگا اور حدیثوں میں بھی آیا ہے کہ دوزخی ہمیشہ اس میں نہیں رہیں گے۔جیسے فرمایا یا تی علی جھنم زمان لیس فیھا احد کیونکہ وہ بھی آخر خدا کے ہاتھ کے بنے ہوئے ہیں ان پر کوئی زمانہ ایسا آنا چاہئے کہ ان کو عذاب کی تخفیف دی جائے۔ یہ معرفت کی باتیں ہوتی ہیں جہنم سے نکلیں گے۔مگر یہ نہیں لکھا کہ بہشت میں مومنین کی طرح ان کو بھی حصہ ملے گا ہاں ان کے ماتھے پر دوزخ کا نشان ہوگا۔ پھر سوال کیا کہ بہشت والوں کو روز کا عیش و آرام بھی دکھ ہو جائے گا۔ فرمایا :- بہشت میں بھی ہر روز ایک تجدد ہوتا رہے گا اسی طرح دوزخیوں پر بھی لکھا ہے بد لنھم جلودا غیرھا (النساء : ۵۷) مگر خد اکا تجدد بے پایاں ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا خدا کے کاموں میں انتہا نہیں ۔فرماتا ہے ولدینا مزید (ق: ۳۶) یعنی زیادتی ہوتی رہے گی۔ پھر سوال کیا کہ میں نے آج تک روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فدیہ دوں۔ فرمایا :- خدا ہر ایک شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا۔وسعت کے موافق گذشتہ کا فدیہ دے دو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے ضرور رکھوں گا۔؎ٰ ۳؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ صبح کی سیر اﷲ اور رحمٰن سیر کو نکلتے ہی سلسلہ کلام یبدی لک الرحمن الاہم سے شروع ہوا۔ فرمایا :- رحمان اپنے اندر بشارت رکھتا ہے چونکہ یہ بشارت تھی اس لئے اس الہام میں رحمان کا لفظ رکھا ہے۔اور شیئا کے لفظ میں کچھ اخفا تھا جو گو اس کی عظمت کے لئے ہے مگر ایک