حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کبھی کشف میں۔کبھی رئویا میں۔ایک حالت رئویا کی ہوتی ہے وہ نیند میں ہوتی ہے اس میں غیبت حس ہوتی ہے کہ انسنا سو کر کہیں کا کہیں سیر کرتا ہے اور مکان اس کا بدلتا ہے مگر کشف میں مکان نہیں بدلتا۔کبھی غنودگی میں ہوتا ہے اور کبھی بیداری میں اور باوجود غنودگی کے حصہ کے پھر بھی ایک آواز کو سنتا ہے۔جانتا ہے کہ فلاں مکان میں ہوں ایک دفعہ میں نے فرشتوں کو انسان کی شکل میں دیھکا یادنہیں کہ دو تھے یا تین آپس میں باتیں کرتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ تو کیوں اس قدر مشقت اٹھاتا ہے اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جائے میں نے سمجھا کہ یہ جو چھ ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرھ اشارہ ہے (اس مقام پر حضرت اقدس نے اپنا واقعہ مجاہدہ اور ششماہی روزے کا بیان فرمایا جو کہ البدر نمبر ۱ میں زیر عنوان اسوہ حسنہ درج ہے) فرمایا کہ روزوں کو میں نے مخفی طور پر رکھا بعض دفعہ اظہار میں سلب رحمت کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے مخفی رکھنا اچھا ہوتا ہے چونکہ میں مامرو تھا اس لئے کوئی مرض وغیرہ نہ ہوا ورنہ اگر کوئی اور ہوتا اور اس قدر شدت اٹھاتا تو ضرور مسلول مدقوق یا مجنون ہو جاتا۔ پھر ایک دفعہ مجھے ایک فرشتہ آٹھ یا دس سالہ لڑکے کی صورت میں نظر آیا اس نے بڑے فصیح اور بلیغ الفاظ میں کہا کہ خد اتعالیٰ تمہاری ساری مرادیں پوری کرے گا۔ اسی طرح ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک نالی شرقاً غرباً بہت لمبی صد ہا میل تک کھدی ہوئی ہے اور اس کے اوپر صدہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چھری لئے ہوئے تیار بیٹھا ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے میں اس وقت اس مقام پر ٹہل رہا ہوں اور ان کو دیکھ رہا ہوں ان کے نزدیک جاکر میں نے کاہ قل ما یعبؤا بکم ربی لولا دعاؤکم (الفرقان : ۷۸) انہوں نے اسی وقت چھریاں پھیردیں کہ حکم ہوگیا۔معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے میں نے جو آوازدی تو انہوں نے سمجھا کہ حکم ہو گیا اور جو آواز آسمان سے آنی تھی وہ میں نے کہی جب وہ بھیڑیں تڑپیں تو انہوں نے کہا کہ تم چیز کیا ہو میلا کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ان ایام میں پچہتر ہزار آدمی ہیضہ سے مرا تھا ۱۸۸۲ء کا ذکرہے۔