مولانا عبد الکریم صاحب نے کہا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا نیا اسم ہے آج تک کبھی نہیں سنا حضرت اقدس نے فرمایا ۔
بیشک اسی طاعون کی نسبت جو الہامات ہیں وہ بھی ہیں جیسے افطرواصوم یہ بھی کیسے لطیف الفاظ ہیں گویا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ طاعون کے متعلق میرے دو کا م ہوں گے کچھ حصہ چپ رہوں گا یعنی روزہ رکھوں گا اور کچھ افطار کروں گا اور یہی وقعہ ہم چند سال سے دیکھتے ہیں شدت گرمی اور شدت سردی کے موسم میں طاعون دب جاتی ہے گویا وہ اصوم کی حالت ہ یوار فروری مارچ اکتوبر وغیرہ میں زور کرتی ہے وہ گویا افطار کا وقت ہوتا ہے اور اسی لطیف کلام میں سے ہے
انی انا الصاعقۃ
نماز میں لذّت کے حضول کی شرائط
ایک نے عرض کی کہ نماز میں لذت کچھ نہیں آتی حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ
نماز نماز بھی ہو۔نماز سے پیشتر ایمان شرط ہے ایک ہندو اگر نماز پڑھے گا تو اسے کیا فائدہ ہو گا جس کا ایمان قوی ہوگا وہ دیکھے گا کہ نماز میں کیسے لذت ہے اور اس سے اول معرفت ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے آتی ہے اور کچھ اس کی طینت سے آتی ہے جو محمود فطرت والے مناسب حال اس کے فضل کے ہوتے ہیں اور اس کے اہل ہوتے ہیں انہیں پر فضل بھی کرتا ہے ہاں یہ بھی لازم ہے کہ جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے ویسے ہی خد اکی راہ میں بھی کرے پنجابی میں ایک مثل ہے ’’جومنگے سو مر رہے مرے سو منگن جا‘‘۔
دعا کی حقیقت
لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو۔دعا کرنا مرنا ہوتا ہے اس پنجابی مصرعہ کے یہی معنے ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ دعا کرتا ہے دعا میں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مر جاتا ہے مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعویٰ کرے کہ میری پیاس بجھ گئی ہے یا یہ کہ اسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس بات کی تصدیق ہوگی۔پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ جب دعا کی جاتی ہے حتیٰ کہ روح گداز ہو کر آستانہ الٰہی پر گر جاتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے اور الٰہی سنت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خدا وند تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا اسے جواب دیتا ہے۔