سالوں میں ظہور میں آچکے ہیں۔
المشتہر
مرزا غلام احمد قادیانی
یکم جنوری ۱۹۰۳ء
قادیان میں عید الفطر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید سے پیشر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے مل کر تناول فرمائے۔گیارہ بجے کے قریب خد اکا برگزیدہ
جری اﷲ فی حلل الانبیاء
سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے مسجد اقپیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی اور عید کی مبارک باد دی۔
اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریھ لائے اور آپ نے عید کی نماز پڑھائی اور ہر دو رکعت مٰں سورۃ فاتحہ سے پیستر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے گوش مبارک تک حسب دستور اپنے ہاتھ اٹھائے
ظہر کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے تو کمر کے گرد ایک صافہ لپٹا ہوا تھا۔
فرمایا کہ
کچھ شکایت درد گردہ کی شروع ہو رہی ہے اس لئے میں نے باندھ لیا ہے ذرا غنودگی ہوئی تھی اس میں الہام ہوا ہے۔
تا عود صحت
فرمایا کہ
صحت تو اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔جب تک وہ ارادہ نہ کرے کیا ہو سکتا ہے۔
ہمت بلند رکھنی چاہئے
عصر کے بعد حضور نے مجلس فرمائی سید ناصر شاہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ
ہمت بلند رکھنی چاہئے انسان اگر دنیوی امور میں ہمت ہار دے تو دینی امور میں بھی ہار دیتا ہے یہ