جیسے جیسے وہ تیار ہوتی جاتی ہے اور جب وہ عین لائق ہوتی ہے تو خدا اس پر فیضان کرتا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے
ثم انشانہ خلقا اخر (المومنون : ۱۵)
پیدائش کے اَسرار
پھر اس کے بعد روح کا زکر چلا اور ایک شخص نے اس کے متعلق سوال کیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ
جس شئے نے پیدا ہونا ہوتا ہے تو روح کی استعداد اس شئے میں ساتھ ساتھ چلی آتی ہے۔
جیسے جیسے وہ تیار ہوتی جاتی ہے اور جب وہ عین لائق ہوتی ہے تو خدا اس پر فیضان کرتا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے
ثم انشانہ خلقا اخر (المومنون : ۱۵)
میں نے ایک انڈے کو ایک دفعہ پیالی میں ڈالا دیکھا تو اس کی زردی اور سفیدی پانی کی طرح ہوئی ہوئی تھی۔اور اس کے درمیان میں ایک نقطہ خون کا خشخاش کے دانہ کی طرح تھا ارو اس کی کئی تاریں کوئی کسی طرف کو اور کوئی کسی طرف کو نکلی ہوئی تھیں اور سوائے اس نقطہ کے اور کوئی حرکت اس میں نہ تھی تو میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ خلق اشیاء کا سلسلہ ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ اول سر بنایا۔پھر ہاتھ پائوں وغیراہ بلکہ اس کی کاروائی یکساں ہوتی ہے اور سب کچھ پہلے سے ہی ہوتا ہے صرف نشوونما پاتا جاتا ہے میں نے بعض دائیوں کو کہا ہوا تھعا کہ جو بچے اسقاط ہوا کریں تو دکھایا کرو تو میں نے بعض بچے دیھکے ان کے بھی سب اعضاء وغیرہ بنے بنائے تھے خدا کا یہ خلق معمار کی طرح نہیں کہ اول دیواریں بنائیں پھر چوبارہ بنایا پھر اوپر اور کچھ بنایا بلکہ چار ماہ کے بعد جب روح کی تکمیل ہوتی ہے تو اس وقت
انشا نہ خلقا اخر
اس پر صادق آتا ہے تو بچہ حرکت کرنے لگتا ہے۔
تکمیل کے مراتب
جیسے دنیا کے سات دن ہیں یہ اشارہ اسی طرف ہے کہ دنیا کی عمر بھی ساتھ ہزار برس ہے اور یہ کہ خدا نے دنیا کو چھ دن میں بنا کر ساتویں دن آرام کیا اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ ہر شیئے چھ مراتب ہی طے کر کے مرتبہ تکمیل کا حاصل کرتی ہے نطفہ میں بھی اسی طرح چھ مراتب ہیں کہ انسان اول سلسلہ میں طین ہوتا ہے پھر نطفہ‘ پھر علقہ‘ پھر مضغہ‘ پھر عظاما‘ پھر لحما‘ پھر سب کے بعد
ان شا نہ خلقا اخر
اور اس سے یہ بھی معلوم ہوت اہے کہ باہر سے کچھ نہیں آتا بلکہ اندر سے ہی ہر ایک نشونما پاتی ہے۔
رُوح سے متعلق آریوں کے عقیدہ کا رد
آریوں کا یہ اصول کہ جب انسان مرتا ہے تو اس کی روح اندر سے نکل کر آکاش میں رہتی ہے رات کو اور کے ساتھ مل کر کسی پتہ یا گھاس پر پڑتی ہے وہ پتہ یا گھاس کوئی کھالیتا ہے تو اس کے ساتھ وہ روح بھی کھالی جاتی ہے جو کہ پھر دوسری جاندار شے میں نمودار ہوتی ہے اب اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بچہ خلق اور خلق میں ماں باپ ہر دو سے حصہ لیتا ہے اور جیسے جسمانی حصہ لیتا ہے ویسے ہی روحانی بھی لیتا ہے تفاوت مراتب کے لحاظ سے تناسخ کی ضرورت کو ماننا غلطی ہے یہ تو ہر ایک جگہ پایا جاتا ہے نباتات میں بھی ہم تفاوت مراتب کو دیکھتے ہیں اور اسی طرح انسانوں میں