بعض وقت بہادری کا کام ہوتا ہے حالانکہ ان کو محل بے محل دیکھنے کی تمیز نہیں ہوتی اس کا نام تہور ہوتا ہے کہ وہ ایک طبعی جوش میں آجاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کام کرنا چاہئے تھا کہ نہیں۔غرضیکہ انسان کے نفس میں یہ سب صفات مثل صبر‘ سخاوت‘قانتقام‘ہمت‘بخل‘عدم بخل‘ حسد‘عدم حسد ہوتی ہیں اور ان کو اپنے محل اور موقعہ پر صرف کرنے کا نام خلق ہے حسد بہت بری بلا ہے لیکن جب موقعہ کے ساتھ اپنے مقام پر رکھا جاوے تو پھر بہت عمدہ ہو جاوے گا۔حسد کے معنی ہیں دوسرے کا زوال نعمت چاہنا لیکن جب اپنے نفس سے بالکل محو ہو کر ایک مصلحت کے لئے دوسرے کا زوال چاہتا ہے تو اس وکت یہ ایک محمود صفت ہوجاتی ہے جیسے کہ ہم تثلیث کا زوال چاہتے ہیں۔
ملائک اور شیطان کا عقلی ثبوت
انسان کے اندر دو ملکے خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں ایک فرشتہ اور ایک شیطان۔
نووارد صاحب نے سوال کیا کہ فرشتہ اور شیطان کا عقلی ثبوت کیا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
آپ کے قویٰ میں کبھی نیکی کی طرف اور کبھی بدکاری کی طرف تحریک ہوتی ہے یا نہیں؟نووارد صاحب نے کہا کہ ہاں۔پھر فرمایا کہ
کبھی بھوکے انسان کو دیکھ کر رحم بھی آجا تا ہے اور رحم کی تحریک ہوتی ہے؟
نووارد صاحب نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ
جب تحریک ہوتی ہے تو محرک کوئی اندر ہے جو تحریک کرتا ہے کیونکہ تحریک کے لئے محرک کا ہونا ضروری ہے اور انسان خود اس کا محرک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ حالت مفعول میں ہے تو پھر فاعل کیسے ہوگا(کیونکہ تحریک کا عمل اس پر ہوتا ہے اس لئے انسان مفعول ہے) تو اس نیکی کے محرک کو ہم فرشتہ اور بدی کے محرک کو شیطان کہتے ہیں۔شریعت کا علم نہرحال ہم سے بڑھ کر ہے جن امرو کے ہم زیر اثر ہیں شریعت نے ان کی تفصیل کر دی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم نہ مانیں یہ سب کچھ انسان کو محسوس ہوتا ہے اور ابھی آپ نے تسلیم کیا ہے۔اسی طرح مرنے کے بعد ایک شئے رہتی ہے آپ اسے مانتے ہیں اس کا نام روح ہے اسے علم بھی ہوتا ہے اسنان کتاب یاد کرتا ہے اگر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے تو اس کے علم میں کوئی ھرق نہیں آتا اس سے ثابت ہے کہ علم روح کی صفت ہے نہ کہ جسم کی۔ورنہ ضرور تھا کہ ہاتھ کاٹنے سے اس کے علم میں فرق آجاتا۔اب