دیدیا جائے تاکہ ہر ایک اسٹیشن پر لوگ زیارت کے لئے آجائیں فرمایا کہ جو ہمیں ملنے والے ہیں وہ تو اکثر ئتے جاتے رہتے ہیں جو لوگ جماعت میں داخل نہیں ہیں ان کے لئے سر درد خرید نے سے کیا فائدہ؟میری طبیعت کے یہ امر برخلاف ہے اگر وہ اہل ہوتے تو خود یہاں آتے اب اس طرح ان سے ملاقات تو وقت کا ضائع کرنا ہے۔ خَلق اور خُلق ایک نووارد صاحب نے عرض کی کہ حضرت خلق کے کیا معنے ہیں حضرت اقدس نے فرمایا کہ خَلق اورخُلق دو لفظ ہیں خَلق تو ظاہری حسن پر بولا جاتا ہے اور خُلق باطنی حسن پر بولا جاتا ہے باطنی قویٰ جس قدر مثل عقل‘فہم‘سخاوت‘شجاعت‘غضب وغیرہ انسان کو دیئے گئے ہیں ان سب کا نام خُلق ہے اور عوام الناس میں آج کل جسے خلق کہا جاتا ہے جیسے ایک شخص کے ساتھ تکلف کے ساتھ پیش آنا اور تصنع سے اس کے ساتھ ظاہری طور پر بڑی شیریں الفاظی سے پیش آنا تو اس کا نام خلق نہیں بلکہ نفاق ہے۔ خُلق سے مراد یہ ہے کہ اندرونی قویٰ کو اپنے اپنے مناسب مقام پر استعمال کیا جائے جہاں شجاعت دکھانے کا موقعہ ہو وہاں شجاعت دکھاوے جہاں صبر دکھانا ہے وہاں صبر دکھائے۔جہاں انتقام چاہئے وہاں انتقام لے۔جہاں سخاوت چاہئے وہاں سخاوت کرے۔یعنی ہر ایک محل پر ہر ایک قویٰ کو استعمال کرے نہ گھٹایا جائے نہ بڑھایا جائے۔یہاں تک کہ عقل اور غضب بھی جہاں تک کہ اس سے نیکی پر استقامت کی جاوے خُلق ہی میں داخل ہے اور صرف ظاہری حواس کا نام ہی حواس نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر بھی ایک قسم کے حواس ہوتے ہیں ظاہری حواس تو حیوانوں میں بھی ہوتے ہیں مثلاٍ اگر ایک بکری گھاس کھارہی ہے اوردوسری بکری آجائے تو پہلی بکری کے اندر یہ ارادہ پیدا نہ ہوگا کہ اسے بھی ہمدردی سے گھاس کھانے میں شریک کرے۔اسی طرح شیر میں اگر چہ زور اور طاقت تو ہوتی ہے مگر ہم اسے شجاع نہیں کہہ سکتے کیونکہ شجاعت کے واسطے محل اور بے محل دیکھنا بہت ضروری ہے انسان اگر جانتا ہے کہ مجھ کو فلاں شخص سے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے یا اگر میں وہاں جائوں گا تو قتل ہو جائوں گا تو اس کا وہاں نا جانا ہی شجاعت میں داخل ہے اور پھر اگر محل اور موقعہ کے لحاظ سے مناسب دیکھے کہ میرا وہاں جانا ضروری ہے خواہ جان خطرہ میں پڑتی ہو۔تو اس مقام پر جانے کا نام شجاعت میں داخل ہے۔جاہل آدمیوں سے جو