دل اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اصل بات یہ ہے کہ دل اﷲ کے اختیار میں ہے وہ جس وقت چاہتا ہے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے اور اس کو سمجھ ئجاتی ہے کہ سثا سرور اور خوشحالی اس میں ہے کہ خد اکو پہچانا جائے دیکھو میں اس وقت یہ بات تو کر رہا ہوں مگر میرے اختیار میںیہ بات نہین ہے کہ دلوں تک اس کو پہنچا بھی دوں یہ خد اہی کا کام ہے جو دلوں کو زندہ کرتا ہے اور بیدار کرتا ہے۔باقی تمام جوارح آنکھ‘ ہاتھ‘ وغیرہ ایسے ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں۔مگر دل مسلمان اس کے اختیار میں نہیں ہے اس وقت تک اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھنا چاہئے جب تک دل مسلمان نہ ہو جاوے جب تک وہ لہو لعب سے لذت حاصل کرتا ہے اس کے مسلمان ہونے کا وہی وقت ہے جب وہ دنیوی حیثیت سے دل برداشتہ ہو گیا ہے اور دنیا کی لذتیں اور خوشیاں ایک تلخی کا رنگ دکھائی دیتی ہیں جب یہ حالت ہو تو پھر انسان اپنے آپ کو مشاہدہ کرتا ہے کہ میں وہ نہیں رہا ہوں۔بلکہ اور ہو گیا ہوں پھر دل میں ایک کشش پاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی یاد میں لذت حاصل کرتا ہے اور ایسی محبت اسے نماز سے ہو جاتی ہے جیسے کسی اپنے عزیز کو دیکھ کر خوش ہوت اہے یہ ہے اصل جڑھ ایمان کی۔مگر یہ انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے ہم اس بات کو نمونہ نہیں بتاسکتے اور نہ الفاظ میں اس کو سمجھا سکتے ہیں کیونکہ الفأظ حقیقت کے قائم مقام نہیں ہوتے اس لئے جو یہ حالت آتی ہے تو پھر انسان اپنی گذشتہ زندگی پر حسرت و افسوس کرتا ہے کہ وہ یونہی ضائع ہو گئی کیوں پہلے ایسی حالت مجھ پر نہ آئی۔ نماز کی حقیقت نماز کیا چیز ہے۔نماز در اصل رب العزۃ سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذائوں کے کھانے سے مزا آتا ہے اسی طرح پھر گریہ وبکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پید اہو جائے گی اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو اسی طرح بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے