عرب صاحب نے حضرت حجۃاﷲ کے جذب کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میں ۱۸۹۴ء میں لاہور آیا۔ جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھے ایک کتاب آپ کی تصدیق میں اور ایک مولوی نے آپ کی تردید میں دی مگر میں نے دونو وہیں کسی کو دے دیں اور پروا نہ کی۔مجھے کہا گیا کہ قادیان آئوں مگر میں نہ آیا اور اب خدا کی شان ہے کہ وہ اس قدر فاصلہ (رنگون) سے مجھے لایا اور اسے قدر خرچ کثیر کر کے مجھے آنا پڑا۔ معرفتِ الٰہی سے نماز میں ذوق پیدا ہوتا ہے عرب صاحب نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر دل نہیں ہوتا۔ فرمایا :- جب خدا کو پہچان لوگے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے۔دیکھو یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ خواہ کوئی ادنیٰ سی بات ہو جب اس کو پسند آجاتی ہے تو ھپر دل خواہ نخواہ اس کی طرف کھنچاجاتا ہے اسی طرح پر جب انسنا اﷲ تعالیٰ کو شناخت کر لیتا ہے اور اسکے حسن واخسان کو پسند کرتا ہے تو دل بے اختیار ہو کر اسی کی طرھ دوڑتا ہے ارو بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہو جاتا ہے اصل نماز وہی ہے جس میں خد اکو دیکھتا ہے اس زدگی کا مزا اسی دن آسکتا ہے جبکہ سب ذوق اور شوق سے بڑھ کر جو خوشی کے سامانوں میں مل سکتا ہے تمام لذت اور ذوق دعا ہی میں محسوس ہو۔یاد رکھو کوئی آدمی کسی موت و حیات کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا خواہ رات کو موت آئاوے یا دن کو۔جو لوگ دنیا سے ایسا دل لگاتے ہیں کہ گویا کبھی مرنا ہی نہیں وہ اس دنیا سے نامراد جاتے ہیں وہاں ان کے لئے خزانہ نہیں ہے جس سے وہ لذت اور خوشی حاصل کر سکیں۔ جہنم و جنت کی حقیقت انسان جس لذت کا خوگرفتہ اور عادی ہو جب وہ اس سے چھڑائی جائے تو وہ ایک دکھ اور درد محسوس کرتا ہے ارو یہی جہنم ہے پس جبکہ ساری لذتیں دنیا کی چیزوں میں ممحسوس کرنے والا ہوتو ایک دن یہ ساری لذتیں تو چھوڑنی پڑیں گی پھر وہ سید ھا جہنم میں جاوے گا۔لیکن جس شخص کی ساری خوشیاں اور لذتیں خدا میں ہیں اس کو کوئی دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہوسکتی وہ اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو سید ھا بہشت میں ہوتا ہے۔